انتظامی غفلت کا تسلسل

یونیورسٹی کیمپس کی موجودہ ابتر حالت ایک مہینے یا ایک سال میں مسلط نہیں ہوگی بلکہ یہ گزشتہ دوعشروں کی انتظامی غفلت کا نتیجہ ہے‘ اگرچہ بہی خواہوں نے زبانی اور تحریری دونوں طریق سے تعلیمی ماحول کی بربادی کی نشاندہی ایک بار نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ کردی مگر شنوائی نہ ہو سکی‘سوال یہ ہے کہ ناداری اور بیروزگاری قانون شکنی کا جواز ہو سکتی ہے؟ یونیورسٹی میں پک اینڈ ڈراپ کے نام سے آنے اور یونیورسٹی ہی کے اندر یونیورسٹی افسران اور پروفیسر صاحبان کے گھروں کی دہلیز پر کھڑی ہونے والی گاڑیوں کو قاعدے ضابطے کے تحت لانا کس کی ذمہ داری ہے؟ آیا کوئی ٹیکسی ڈرائیور بغیر رجسٹریشن پرمٹ لائسنس اور شناختی کارڈ کے یونیورسٹی میں سروس کا حق رکھتا ہے؟ آیا کسی نے آج تک پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں سے فٹنس سرٹیفیکیٹ طلب کیا ہے؟ رکشوں اور ٹیکسی گاڑیوں میں سے کتنے سروس کے قابل اور کتنے ڈرائیوروں کے پاس گاڑی کے کاغذات لائسنس اور شناختی کارڈ موجود ہیں؟ پولیس اور انتظامیہ آخر کس مرض کی دوا ہے؟ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ زرعی یونیورسٹی اسلامیہ کالج‘ انجینئرنگ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج نے تو گیٹ بند کرکے وہاں پر تو سٹوڈنٹس کو بھی گاڑی لے جانے کی اجازت نہیں جبکہ ٹریفک اور ہلڑ بازی کا سارا بوجھ صرف پشاور یونیورسٹی کے کندھوں پر ڈال دیا گیا؟ یونیورسٹی کیمپس کے تمام تعلیمی اداروں میں آنیوالی پک اینڈ ڈراپ اور سٹوڈنٹس کی گاڑیوں کا اڈہ پشاور یونیورسٹی ہے اس کا کیا جواز ہے؟ آیا ٹوسٹروک رکشوں‘ بغیر فٹنس سرٹیفیکیٹ کے پک اینڈ ڈراپ گاڑیوں اور پرائیویٹ ٹیکسی گاڑیوں کی سروس قانونی طورپر ممنوع نہیں؟ اگر ہے تو پھر یونیورسٹی کیمپس میں کیوں گھوم پھر رہی ہیں؟ کیمپس پولیس نے آج تک ایسی کتنی گاڑیوں اور رکشوں کو روکا اور چالان کیا؟ مارکیٹوں میں تہہ بازاری‘ ریڑھیوں‘ ٹھیکوں اور سٹال والے کون ہیں؟ اور یہ کاروبار کس کا ہے؟ افسران اور پروفیسر صاحبان کے گھروں کے سرونٹ کوارٹرز میں رہائش پذیر لوگ کون ہیں؟ ان کا ریکارڈ اور موجودہ بودوباش کے بارے میں معلومات پولیس نے حاصل کرلی ہیں؟ ہراسمنٹ ون ویلنگ سکریچنگ اور ریس کیلئے باہر سے آنیوالے اوباش نوجوانوں کو روکنا کس کی ذمہ داری ہے؟ اور اب تو حالت اس نہج پر پہنچ گئی کہ باہر سے سینکڑوں رکشہ والے لاٹھیاں اٹھاکر مسلح جتھے کی شکل میں یونیورسٹی اکثر انتظامیہ کے دفاتر کو تہس نہس کرکے وہاں پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی پاداش میں بند رکشوں کو زبردستی چھڑا کرلے جاتے ہیں مگر پولیس بلوائیوں کے ہلہ بولنے کے نصف گھنٹے بعد پہنچتی ہے اور وہ بھی محض تین اہلکار صرف تماشہ دیکھنے کیلئے؟ یونیورسٹی انتظامیہ نے تہہ بازاری لگانے کے اقدام کیساتھ ساتھ تحریری نوٹس جاری کیا جبکہ کیمپس میں جگہ جگہ بینرز  بھی آویزاں کئے کہ15ستمبر کے بعد یونیورسٹی میں بغیر سٹیکر غیر متعلقہ گاڑیوں کے داخلے اور بغیر رجسٹریشن پرمٹ لائسنس شناختی اور یونیورسٹی پاس کے رکشوں بالخصوص ٹوسٹروک اور ٹیکسی گاڑیوں کی سروس ممنوع ہوگی‘ مگر اس کے جواب میں رکشہ والوں نے انتظامیہ کے نوٹس کو ہوا میں اڑا کر یونیورسٹی انتظامیہ کی رٹ کچھ اس قدر چیلنج کردی کہ مادر علمی کی انتظامیہ کے تاریخی دفاتر خیبر ہاؤس پر حملہ آور ہوئے اور وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجادی اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت‘ صوبائی اسمبلی‘ عدلیہ پولیس حکام اور سیاسی جماعتیں اس دلخراش اور ناقابل قبول واقعہ کا کس حد تک نوٹس لیتی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول اس کے بعد کیسا رہے گا؟۔