انسانوں کے زیرآب رہنے کا سائنس فکشن خیال حقیقت بننے کے قریب

ویسے تو انسانوں کے لیے پانی کے اندر رہنا ناممکن لگتا ہے مگر ایک کمپنی اس سائنس فکشن خیال کو حقیقت بنانا چاہتی ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی کمپنی ڈیپ 'انسانوں کو مچھلی' بنانا چاہتی ہے۔

یہ کمپنی سینیٹینل سسٹم نامی ایسا زیرآب رہائشی و تحقیقی مرکز بنایا چاہتی ہے جہاں لوگ پانی کے اندر 200 میٹر گہرائی میں ایک ماہ تک رہ سکیں اور کام کرسکیں گے۔

اس کمپنی نے برسٹل کے قریب ایک ڈائیونگ سینٹر کو خرید کر اسے تحقیقی مرکز بنایا ہے۔

سینیٹینل سسٹم ایک دوسرے سے جڑے موڈیولز پر مشتمل ہوگا جن کو سمندر کے اندر مختلف طرح کے ڈیٹا کو اکٹھا کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

کمپنی کے مطابق موڈیولز کو مختلف شکلوں میں تبدیل کرکے اس مرکز کو 6 سے 50 افراد کی رہائش کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔

کمپنی کو توقع ہے کہ اس مرکز میں انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کی طرح ہر وقت انسان رہ سکیں گے بس فرق یہ ہوگا کہ یہ خلا کی بجائے سمندر کے اندر ہوگا۔

گزشتہ دنوں کمپنی کی جانب سے ایک چھوٹے پروٹوٹائپ زیرآب مرکز کی تیاری کا اعلان کیا گیا تھا۔

12 بائی 7.5 میٹر حجم کے اس مرکز میں 3 افراد ایک ہفتے کے زیرآب رہ سکیں گے اور یہ 2025 کے شروع میں برطانیہ میں سمندر کے نیچے جانے کے لیے تیار ہوگا۔

انسانوں کے زیرآب رہنے کا سائنس فکشن خیال حقیقت بننے کے قریب

ابھی اس پر کام کیا جا رہا ہے / فوتو بشکریہ ڈیپ

ابھی دنیا میں صرف ایک زیرآب تحقیقی مرکز کام کر رہا ہے جسے فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کی جانب سے چلایا جا رہا ہے۔

برطانوی کمپنی نے بتایا کہ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلتا رہا تو 2027 تک سینیٹینل سسٹم تیار ہو جائے گا۔

کمپنی اس طرح کے مراکز دنیا کے مختلف مقامات پر نصب کرنا چاہتی ہے۔

سینیٹینل سسٹم کے موڈیولز کو روبوٹس کی جانب سے تھری ڈی پرنٹر سے تیار کیا جائے گا۔

اس مرکز تک رسائی آبدوز سے ہوگی یا ڈائیورز وہاں تک 'مون پول' کے ذریعے پہنچ سکیں گے، جو سمندر کی سطح پر موجود ہوگا۔

مرکز کے اوپر سمندر کی سطح پر ایک buoy بھی موجود ہوگا جو اسٹار لنک انٹرفیس سے لیس ہوگا تاکہ اس مرکز میں موجود افراد کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہو۔

اس مرکز کو ماحول دوست توانائی کے ذریعے سے بجلی فراہم کی جائے گی۔