ماڈل و اداکارہ صحیفہ جبار خٹک نے کہا ہے کہ مقدس کتاب قرآن پاک میں بھی ڈپریشن کا ذکر کیا جا چکا ہے جب کہ اسلام میں بھی اس پر بحث کی جاتی رہی ہے لیکن کہیں یہ نہیں لکھا کہ ڈپریشن کا علاج نہیں کروانا چاہیے۔
صحیفہ جبار خٹک کا کہنا تھا کہ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ بیماری کو بیماری کے طور پر ٹھیک کرنا ہوگا، اس کا علاج ہوتا ہے۔
صحیفہ جبار خٹک نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے دیگر معاملات سمیت ڈپریشن پر بھی بات کی اور یہ بھی بتایا کہ کس طرح لوگ دوسروں کے عقائد اور عبادت پر طنز کرتے ہیں۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ وہ کیمرے کے سامنے اگر یہ کہتی ہیں کہ وہ پانچ وقت کی نماز پڑھتی ہیں، تہجد گزار ہیں تو لوگ ان کے طرز زندگی پر سوالات اٹھانا شروع کریں گے اور کہیں گے کہ اداکارہ کے ہاتھ پر ٹیٹو بھی بنا ہوا ہے، انہیں یہ کام چھوڑ دینا چاہیے، وہ کام نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ کسی بھی حالت اور صورت میں خوش نہیں ہوتے، انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ درد کو درد سمجھ کر اس کا علاج کروایا جاتا ہے جب کہ بیماری کو بیماری ہی سمجھا جانا چاہیے۔
صحیفہ جبار کے مطابق ان کے ساتھ جب بھی کوئی بیماری یا اسی طرح کا کوئی دوسرا مسئلہ ہوتا ہے تو انہیں کہا جاتا ہے کہ فلاں قرآن کی صورت سن لیں، فلاں صورت پڑھ لیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ بطور مسلمان قرآن پاک کی تلاوت کرتی ہیں، وہ مختلف صورتیں سنتی رہتی ہیں اور ان کا ان پر یقین بھی ہے لیکن بعض مرتبہ کچھ تکالیف اور درد ٹھیک نہیں ہوپاتے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ابھی بطور معاشرہ ہم اتنے باشعور اور سمجھدار نہیں ہوئے، ہمارے ہاں 15 سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادیاں کروا دی جاتی ہیں جو کہ 16 سال کی عمر میں ماں بن جاتی ہیں۔
ان کے مطابق ہم بطور معاشرہ بہت پیچھے ہیں، ہم اپنے لوگوں کو بنیادی تعلیم اور شعور تک نہیں دے پا رہے۔
انہوں نے کہا کہ جس بچی کی 15 سال کی عمر میں شادی کرادی جائے اور وہ 16 سال کی عمر میں بچہ پیدا کرے، وہ ڈپریشن اور انزائٹی کو کہاں سمجھ پائے گی؟
صحیفہ جبار کے مطابق جب بھی کوئی ڈپریشن یا دوسرے مسائل کی بات کرتا ہے تو ہم اس کی بات کو گھما پھرا کر مذہب کی طرف لے آتے ہیں جب کہ مذہب میں ڈپریشن پر بحث کی جا چکی ہے اور قرآن میں بھی ڈپریشن کا ذکر ہے۔
اداکارہ و ماڈل کا کہنا تھا کہ قرآن میں ڈپریشن سمیت دیگر بیماریوں کا حل بتایا گیا ہے، یہ نہیں کہا گیا ہے کہ بیماری کا علاج نہ کروایا جائے، بخار ہو تو دوائی نہیں لینی۔
انہوں نے دلیل دی کہ مذہب بھی کہتا ہے کہ اگر بخار یا دوسری بیماری ہے تو ڈاکٹر کے پاس جانا ہے، دوسرے کام بھی ساتھ میں کرنے ہیں لیکن دوائی بھی لینی ہے، شفا خدا ہی دے گا لیکن ڈاکٹر کے پاس جانے اور دوائی کھانے سے روکا نہیں گیا۔