جامعہ کا مخدوش حال‘غیر واضح مستقبل

قدیم درسگاہ کی ایک مہینے کی تنخواہیں 20کروڑ سے زائد ہیں‘ پنشن اور متفرقہ اخراجات کو ملا کر ماہانہ تقریباً 40 کروڑ درکار ہوتے ہیں‘ممکن ہے کہ آئندہ دوچار سال کے دوران اخراجات50 کروڑ تک پہنچ جائیں کیونکہ سالانہ بجٹ میں تسلسل کے ساتھ تنخواہوں اور پنشن  میں اضافہ جات کا جو اعلان کیا جاتا ہے اس کی ادائیگی  کیلئے جامعات کو گرانٹ کی فراہمی ناگزیر نہیں سمجھی جارہی بلکہ ہر حکومت محض اس تلقین پر اکتفا کرکے چلی آئی ہے کہ چونکہ یونیورسٹیاں خودمختار ادارے ہیں لہٰذا اپنے اخراجات کا خود انتظام کریں گی  دراصل یہ خود مختاری والی بات بڑی عجیب و غریب لگتی ہے کیونکہ18ویں آئینی ترمیم اور پھر خیبرپختونخوا میں سال2016ء کے ترمیمی ایکٹ کے بعد اگر کوئی یونیورسٹی اپنے آپ کو خود مختار کہلائے گی تو یہ اپنے آپ کو ورغلا نے کے سوا کچھ نہیں ہوگا‘کچھ عرصہ قبل تعلیمی حلقوں میں یہ بات گردش میں تھی کہ صوبائی حکومت کو18ویں آئینی ترمیم کے پیش نظر جامعات کو سنبھالنے اور چلانے کی ذمہ داریوں کا غالباً احساس ہوگیا‘اس لئے کہا جاتا ہے کہ صوبے کی جامعات کو گرانٹ کی شکل میں 13 ارب روپے دیئے جائیں گے‘ مگر شومئی قسمت کہ جب نئی خبر آئی تو وہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کی مانند تھی‘ یعنی32 یونیورسٹیوں کیلئے محض150 کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان ہو‘ا یہ بھی کہا گیا کہ اس میں سے زیادہ گرانٹ یعنی30 کروڑ روپے پشاور یونیورسٹی کو ملیں گے‘اب جبکہ جامعہ پشاور کے ایک مہینے کے اخراجات40کروڑ ہیں اور مسلسل بڑھ رہے ہیں تو پھر کوئی آکر یہ طریقہ بھی تو بتا دے کہ یونیورسٹی چلے گی کیسے؟ تعلیم مہنگی ہونے کا تو یہ عالم ہے کہ پشاور یونیورسٹی جیسی درسگاہ میں داخلہ اعلانات کے باوجود طلباء کی مطلوبہ تعداد میسر نہیں اور یوں یکے بعد دیگرے داخلہ نوٹس جاری کئے جارہے ہیں جبکہ ساتھ ہی داخلہ فارم کیلئے مقرر کی گئی آخری تاریخ میں توسیع کی سیریز بھی جاری رہتی ہے تو پھر اس سوال کا کیا جواب ہوگا کہ یونیورسٹی اپنے اخراجات کیلئے مالی وسائل کا خود انتظام کرے؟ ویسے اگر کوئی سمجھتا ہو کہ یونیورسٹیاں طلباء کی فیس سے چلتی ہیں تو یہ ان کی بھول ہوگی‘باقی رہی دوسرے ذرائع آمدن کی بات تو اگر وہ کسی حد تک ہیں بھی مگر مہنگائی کے طوفان نے کچھ اس قدر مفلوج کرکے رکھ دیئے ہیں کہ ان سے ترقیاتی کام اور طلباء کو سہولیات کی فراہمی تو دور کی بات جامعات انتظامیہ کے اخراجات اور یوٹیلٹی بل بھی ادا نہیں ہو سکتے‘ اس ضمن میں اس واقعہ کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ امسال جامعہ پشاور نے اگست کی تنخواہیں تقریباً تین ہفتے تاخیر سے20ستمبر کو ادا کر دیں‘ البتہ یہ ضرور ہوا کہ رواں مالی سال کے بجٹ اضافے کیساتھ نئی تنخواہ دی گئی مگر سوال یہ ہے کہ سال میں تو بارہ مہینے ہوتے ہیں تو باقیماندہ گیارہ مہینوں کی نئی تنخواہوں کا کیا بنے گا؟ اب جبکہ مہنگائی میں مسلسل اضافے یعنی بہ الفاظ دیگر اخراجات کے بڑھنے‘ بجٹ میں ہونے والے اضافے کی ادائیگی کیلئے مطلوب گرانٹ کی عدم فراہمی اور داخلہ نوٹس کی بار بار تشہیر کے باوجود طلباء کے نہ آنے جیسی حالت کا سامنا ہو تو پھر جامعات کے مستقبل کے بارے میں کسی خوش فہمی کی بات کی جا سکتی ہے؟ نہ جانے کہ دوسرے صوبوں میں بھی تعلیم کی حالت اس قدر دگرگوں ہے یا صرف خیبرپختونخوا کے بچے اور جوان بدنصیب ہوگئے ہیں؟ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ثابت ہوگی کہ تعلیمی ابتری کا سلسلہ اگر اسی طرح برقرار رہا تو وہ وقت شاید اب بہت دور نہ ہو کہ ہم سیاست‘ امن‘ معیشت اور جمہوریت کی طرح تعلیم میں بھی کہیں کے نہیں رہیں گے‘ کہتے ہیں کہ تعلیم سیاست کے ذمے رعایا کا حق اور ایک بنیادی آئینی ذمہ داری ہے تو کیا رعایا کو ان کا حق دینے اور آئینی ذمہ داری نبھانے کا وقت ابھی نہیں آیا؟ مجھ سمیت بعض لوگوں کا غلط اندازہ تو یہ تھا کہ تعلیم پر سالانہ غالباً کل بجٹ یا سالانہ ترقیاتی پروگرام کا کم از کم دو ڈھائی فی صد خرچ ہوگا لیکن ابھی حال میں جب معلوم ہوا کہ تعلیم پر محض ایک اعشاریہ پانچ فیصد خرچ ہو رہاہے تو میری حیرت تو سکتہ میں تبدیل ہوگئی‘اب کوئی یہ بتا دے کہ اس برائے نام بجٹ سے شعبہ تعلیم کے کون کونسے اخراجات پورے ہوں گے اور کیسے؟۔