سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق نظرثانی درخواست خارج کردی

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق نظرثانی درخواست خارج کر دی۔

پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق نظرثانی کی درخواست چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے نظرثانی درخواست کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے کی استدعا کی اور کہا کہ کیس لارجر بینچ کی تشکیل کے لیے کمیٹی کو بھیجا جائے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کا معاملہ ہے، ہم نے قانون کو دیکھنا ہے، نظرثانی درخواست میں عدالتی فیصلوں کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھانے ہوتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا آپ نے اس پوائنٹ کو پہلے کیوں نہیں اٹھایا، آپ کیس کو چلا لیں۔

حامد خان کا کہنا تھا عدالت سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کیس کے فیصلے کا پیراگراف دیکھ لے، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا وہ فیصلہ ہم کیوں دیکھیں،انٹرا پارٹی انتخابات اور معاملہ ہے، وہ الگ معاملہ ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا موجودہ 3 رکنی بینچ کیس نہیں سن سکتا، سنی اتحاد کونسل کیس میں 13 رکنی بینچ فیصلہ دے چکا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا مخصوص نشستوں کے کیس میں نظرثانی زیر التوا ہے، کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیکھیں گے جس پر نظرثانی زیر التوا ہے، آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں، آپ نے اپنی بات تو کرنی ہی کرنی ہے، جو کہنا ہے منہ پر کہنا چاہیے، ٹیلی ویژن پر بیٹھ نہیں کہنا چاہیے، ہمارے منہ پر جو مرضی کہیں، پیٹھ پیچھے نہیں، آپ نے دلائل کیوں نہیں دینے، جواب دیں؟ حامد خان نے کہا کہ مجھے دلائل نہیں دینے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ جب نیازی صاحب وزیراعظم تھے تو انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے نوٹس جاری ہوا، تب بھی نہیں کرایا، ایسا تو نہیں کہ آپ لوگ انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے دلچسپی نہیں رکھتے اور عوام سے ہمدردی لینا چاہتے ہیں، انتخابات کرانے کیلئے تو دو ہفتے کا وقت دیا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ کیس چلانا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جس پر حامد خان بولے میں اب وہ کہہ دیتا ہوں جو کہنا نہیں چاہتا تھا، قاضی فائز عیسیٰ نے کہ منہ پر بات کرنے والےکو میں پسند کرتا ہوں۔

حامد خان نے کہا میں ایسے شخص کے سامنے دلائل نہیں دے سکتا جو ہمارے خلاف بہت متعصب ہو، جس پر چیف جسٹس پاکستا نے کہا میں آپ کو مجبور نہیں کر سکتا جبکہ جسٹس مسرت ہلالی بولیں ایک جماعت انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں کیوں تاخیر کررہی ہے؟ انٹرا پارٹی انتخابات کروانا تو ایک ہفتےکا کام ہے۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں گوہر علی خان، نیاز اللہ نیازی، علی ظفر بھی تھے، ان میں سےکوئی دلائل دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے، حامد خان بولے میں موجودہ بینچ کے سامنے دلائل دینا ہی نہیں چاہتا، کیس کیلئے نیا بینچ بنے گا تو دلائل دوں گا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا چلیں پھر گپ شپ کر لیتے ہیں، آپ کو سننے میں مزہ آتا ہے۔

حامدخان نے کہا متعصب ہونے کی درخواست تو دی جا سکتی ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا متعصب کیوں؟ جو آئین پر بات کرے متعصب ہو گا؟ جبکہ چیف جسٹس پاکستان نے کہا آپ باہر جا کر تقریر کریں۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن سے متعلق 13 جنوری کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے نظرثانی درخواست خارج کر دی اور کہا کہ فیصلے میں کسی غلطی کی نشاندہی نہیں کی جاسکی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ گزشتہ فیصلے میں کسی غیر قانونی نکتے کی نشاندہی نہیں کی گئی، تحریک انصاف کے وکلا نے کیس کے میرٹس پر دلائل ہی نہیں دیے۔

حامد خان کا کہنا تھا کہاجا رہا ہےکہ ہم نے انٹراپارٹی انتخابات کرایا ہی نہیں، ہم نے انٹرا پارٹی انتخابات کرایا ہے، جناب نے اسے کالعدم قرار دیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کی جماعت کا انتخابات کا آئین بہت شفاف ہے، یا تو آپ ایسے آئین کو بدل دیں یا اس کے مطابق انٹرا پارٹی انتخابات کروائیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے روسٹرم پر آکر 26ویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیا اور کہا کہ یہ بینچ اب یہ کیس سن ہی نہیں سکتا، نہ ہم اس کے سامنے دلائل دیں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں نہیں معلوم کسی ترمیم کا، ہمارے سامنے کچھ نہیں ہے، ہمیں نہ بتائیں ہم کیا سن سکتے ہیں اور کیا نہیں۔