کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا کلینک سیل کرنے کیخلاف درخواست پر وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔
ہائیکورٹ میں سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا کلینک سیل کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔
عدالت نے ایس بی سی اے کے وکیل سے استفسار کیا کہ ہمیں یہ سمجھایا جائے کہ وہاں کیا غیر قانونی تعمیرات کی گئی ہیں۔
ایس بی سی اے کے وکیل نے موقف دیا کہ اس مقام پر کمرشل سرگرمیوں کا سلسلہ جاری تھا جسکی وجہ سے ہماری جانب سے کارروائی کی گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی جانب سے بلڈنگ کی تعمیرات کے حوالے سے بہت سی تبدیلیاں کی گئیں۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کس قانون کے تحت اس طرح کی تعمیرات کیخلاف کارروائی کی جاتی ہے۔
ایس بی سی اے کے وکیل نے موقف دیا کہ 1991 میں یہ بلڈنگ بنائی گئی تھی جسکے بعد 2002 میں اس میں تبدیلی بھی کی گئی۔ اس پلاٹ کے اپروول پلان میں بھی کہیں ذکر نہیں کیا گیا کہ اس جگہ پر کلینک بنایا جارہا ہے۔ یہاں رہائشی بلڈنگ کا پلان اپروول لیا گیا اور تعمیرات کی گئی ہیں۔ جب ہمیں اس بلڈنگ کے حوالے سے شکایت ملی تو نوٹس جاری کئے گئے اور قانون پر عمل درآمد کیا گیا۔
عارف علوی کے وکیل انور منصور خان نے موقف میں کہا کہ ہمیں اس حوالے سے کوئی بھی نوٹس نہیں دیا گیا۔ کلینک کو سیل غیر قانونی تعمیرات پر کیا گیا اور نوٹس مس یوز آف پراپرٹی پر دیا گیا۔ ہمارا کلینک غیر قانونی طور پر سیل کیا ہوا ہے۔ یہ کلینک بہت عرصے سے اس مقام پر قائم ہے۔ اس بلڈنگ کو سماجی بہبود کے کام کے لئے سالوں سے استعمال کیا جارہا تھا۔ یہ بلڈنگ کسی ہوٹل یا ریسٹورنٹ کے لیے استعمال نہیں ہورہی ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جس شہری نے شکایت کی ہے وہ خود تو یہاں نہیں بلکہ خالد بن ولید روڈ پر رہائش پذیر ہے۔ لگتا ہے کہ جس طرح تمام چیزوں پر کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اسی طرح یہاں بھی ہو رہا ہے۔
عدالت نے سابق صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کے کلینک کو سیل کرنے کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔