نیپال میں ہمارے سفیر پشاور کے تھے

ہفتہ اتوار ہم شاپنگ یا کوئی نہ کوئی قابل ذکر جگہ دیکھنے جاتے تھے‘ نیپال میں بادشاہانہ نظام ہے میں اکثر گلیوں سڑکوں پر چھٹی کے دن تنہا نکل جاتی تھی ایک دفعہ میں سڑک پر جا رہی تھی ایک دم سے پولیس کے دستے نمودار ہوئے ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے اور وہ لگاتار چلتے ہوئے لوگوں پر ڈنڈے برسا رہے تھے اور انہیں ایک طرف ہٹ جانے کو کہہ رہے تھے۔ نیپال کے لوگ ہندی اور نیپالی بولتے ہیں میں بھی ان پولیس والوں کے تشدد کی زد میں آ گئی اور جلدی سے ایک نسبتاً تنگ گلی میں چھپ گئی معلوم پڑا کہ نیپال کا بادشاہ اس سڑک سے گزرنے والا ہے اور راستے خالی کروائے جا رہے ہیں‘ غریب ملک کا امیر بادشاہ‘ کیسی حیرانگی کی باتیں ہیں‘ ایشیا کے غریب ممالک اور ان کے حکمران ارب پتی۔ اس واقعے کے بعد کئی سالوں بعد میں نے پڑھا تھا کہ یہاں بادشاہ اور اس کے تمام اہل خانہ کو ایک شہزادے نے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا‘ میں نے باہر سے شاہی محل بھی دیکھا تھا اس کے ارد گرد سخت پہرہ تھا‘ نیپال کے بازار ان کی مقامی اشیاء سے اور چین کی اشیاء سے بھرے پڑے ہیں‘ چائنہ کا بارڈر تبت کی طرف سے نیپال کی طرف لگتا ہے میں نے جتنی پراڈکٹ چائنہ کی نیپال میں دیکھیں شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملیں۔ خرید و فروخت کے حساب سے نیپال بہت ہی سستا ہے ہمیں روزانہ تربیت کے دوران پیسے بھی ملتے تھے میں نے ایسی شالز خریدیں جو خالص بھیڑ کی اون سے اور ہاتھ سے بنی ہوئی تھیں‘ جیکٹس‘ موتیوں سے بنے ہار‘ نیپالی ٹوپیاں اور نہ جانے کیا کیا خریداری کی‘ وہ اشیاء میں نے مدتوں استعمال کیں اور جن کو تحفتاً دیں انہوں نے بھی اس کو استعما ل کیا۔ تربیتی کورس کے دوران میں نے اپنے سفارتخانے فون کیا میرا دل چاہتا تھا کہ ان کو آگاہ کروں کہ پاکستان سے بھی کوئی تربیت حاصل کرنے نیپال آیا ہے‘ میرا فون ایمبیسی کے فرسٹ سیکرٹری عبدالقادر نے اٹھایا اور بہت خوش دلی کیساتھ مجھے خوش آمدید کہا اور ایمبیسی آنے کی دعوت بھی دی‘ میں نے چھٹی کے دن ناشتے پر یہ دعوت قبول کر لی ایمبیسی کی گاڑی مجھے لینے میرے ہوٹل آئی میں نے اپنی کورس ڈائریکٹر محترمہ مانل کورلے سے اجازت لی اپنے ساتھ پاکستان سے لائی ہوئی فوک میوزک پر کچھ سی ڈیز‘ کیسٹ اور تحریری مواد کے سکرپٹس لئے کہ ایمبیسی کو تحفہ دے دوں گی اور میں ڈرائیور کیساتھ پاکستان ایمبیسی پہنچی ایمبیسی کے بالکل ساتھ عبدالقادر کی رہائش گاہ تھی وہ مجھ سے مل کر بے پناہ خوش ہوئے ان کی بیگم اور شاید دو بچے بھی ان کیساتھ تھے ان کے گھر میں شاید نیپال سے ہی تعلق رکھنے والی میڈ تھی جو ان کی بیگم کا کچن میں ہاتھ بٹا رہی تھی۔ عبدالقادر خوش قسمتی سے صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے تھے اور ہندکو بولنے والے 
تھے ان کو یہ بات بہت خوشی دے رہی تھی میں تو خود ہندکو بول کر بہت خوشی اور آسانی محسوس کرتی ہوں ہم نے اپنی مادری زبان میں پاکستان‘ پشاور اور نیپال کے بارے میں بے شمار باتیں کیں ان کی بیگم البتہ خاموش طبع تھیں انہوں نے جتنی بھی بات کی وہ اردو زبان میں تھی حالانکہ ان کا تعلق بھی پشاور سے تھا لیکن ہو سکتا ہے وہ ہندکو نہ جانتی ہوں۔ حلوہ پوری کا ناشتہ‘ چھولے‘ نان‘ چائے ذہن میں یہی کھانے رہ گئے ہیں اس لئے کہ ان باتوں کو ایک لمبی مدت گزر گئی ہے۔ عبدالقادر کا اخلاق‘ خوش دلی‘ مہمان نوازی اور پاکستان و پشاور سے محبت آج تک مجھے یاد ہے میں نے ان کو کیسٹوں وغیرہ کا تحفہ دیا تو وہ بہت خوش ہوئے کہنے لگے پاکستان کے خاص دنوں پر ہمارے پاس کوئی میوزک نہیں ہوتا کہ ہم اس کو بجا سکیں یہ ہمارے بہت کام آئے گا۔ تین چار گھنٹوں کی اس نہ بھلا دینے والی نشست کے بعد میں نے ان 
سے اجازت لی انہوں نے نیپال کی سوغات سے مجھے نوازا یہ ایک خوبصورت ہاتھ سے موتیوں کا بنا ہوا نیکلیس تھا جس کے موتی سرخ اور کالے تھے درمیان میں ہاتھی دانت سے بنا ہوا ٹکڑا لگا ہوا تھا یہ ہار آج بھی میرے پاس محفوظ ہے اور عبدالقادر اور ان کے خاندان کی یاد دلاتا رہتا ہے‘ عبدالقادر نے مجھے نیپال کی سیر کروانے کیلئے آفر کی جو میں نے اپنے کورس کی بے پناہ مصروفیت کی وجہ سے معذرت کیساتھ منع کر دی‘ بعد میں بھی انہوں نے ایک بار مجھے ہوٹل کے نمبر پر فون کر کے میری خیریت پوچھی تھی پاکستان واپس آنے کے بعد کبھی بھی ان سے کوئی رابطہ نہ ہوا گو کہ میں خود دلی طور پر ان سے ایک بار ملنا چاہتی تھی۔ تربیتی انتظامات کے تحت ہماری پوری کلاس کو نیپال کے ایک قدیم ترین اور مندروں کے شہر بختا پورہ لے جایا گیا یہاں بالی وڈ کی فلم ستیم شیوم سندرم فلمائی گئی تھی چھوٹا سا شہر تھا اور اتنے مندر ایک دوسرے کیساتھ جڑے ہی دکھائی دے رہے تھے کچھ لوگ ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء بیچ رہے تھے ان میں ہاتھ سے بنے ہوئے بان کے بوٹ میرے ذہن میں آج تک محفوظ ہیں ہم نے گھوم پھر کر مندر دیکھے اندر کچھ لوگ ہی گئے میں نے باہر ہی سے سب 
دیکھا ایک مندر کالی دیوی کا تھا جس کے باہر ایک قصائی دکان پھیلائے گوشت بیچ رہا تھا ہندو لوگ اندر جاتے ہوئے یہ گوشت خرید کر نذرانہ چڑھانے لے جا رہے تھے اس مندر میں مسلمانوں کا جانا ممنوع تھا اپنے ساتھیوں میں واحد میں ہی مسلمان تھی سب دیکھنے میں براؤن ہی تھے ہندوؤں کا رنگ لباس ہماری ہی طرح ہوتا ہے پر ایک ساتھی نے مجھے کہا کہ وہ تھوڑی دیر کیلئے کہہ دے کہ میں ہندو ہوں اس طرح ہم سب اندر سے کالی دیوی کا مندر دیکھ سکیں گے لیکن میں نے انکار کر دیا میں نے کہا کہ میں کبھی مذاق میں بھی یہ بات نہیں کروں گی کہ میں مسلمان نہیں ہندو ہوں میں کٹر مسلمان ہوں تم سب اندر جاؤ میں باہر کھڑے ہو کر تم لوگوں کا انتظار کروں گی تمام لوگ اندر چلے گئے اور میں باہر بازار میں گھومتی رہی پرامن سا علاقہ بہت کم لوگ دیکھنے کو ملے تھے اس لئے کہ یہاں رہائش کم اور مندر زیادہ تھے غیر ملکی سیاحت کیلئے یہاں پھر رہے تھے۔ نیپال کی کئی یادیں ہیں جو مدھم ہیں ان دنوں میں اس طرح کتابیں نہیں لکھتی تھی اس لئے کوئی نوٹس وغیرہ نہیں لئے تھے جو کچھ بھی لکھا ہے اپنے حافظے کی بنیاد پر لکھا ہے۔ نیپال سے تعلق رکھنے والی بہت معصوم اور اچھی خواتین تھیں وہ ہمیں خود لنچ کروانے کئی سستی جگہ لے کر گئیں ہندوستان کی شرکائے کورس ان سے گستاخانہ لہجہ میں بات کرتی تھیں ایک بار ایک خاتون کی آنکھوں میں آنسو آ گئے صحیح بات یاد نہیں ہے لیکن اس کا خفا ہونا یاد رہ گیا ہے۔ براڈ کاسٹنگ کے تربیتی کورسز میں وقت کی پابندی ہوتی ہے لاکھوں ڈالرز ان پر خرچہ آتا ہے‘ ہوائی ٹکٹ‘ ہوٹل میں قیام‘ ڈنر‘ کلاس روم میں ہونے والے اخراجات تو پھر نو بجے سے پانچ چھ بجے تک انسان سورج نہیں دیکھ سکتا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی ایسا گھمبیر پراجیکٹ چل رہا ہوتا ہے۔ کورس کے آخر میں ہر ملک کے شریک کورس کی ایک رپورٹ بھی اس ملک میں بھیجی جاتی ہے کہ اس کا طرز عمل تربیتی کورس کے دوران کیسا تھا ویسے بھی انسان دوسرے ممالک میں اپنے ملک کا سفیر ہوتا ہے کوئی بھی لاپرواہی بے احتیاطی ملک اور ادارے کو بدنام کر دینے کیلئے کافی ہوتی ہے اس لئے ہر شریک کورس بہت احتیاط کرتا ہے‘ ویسے بھی بڑوں کی پڑھائی اور بچوں کی پڑھائی میں فرق ہوتا ہے اداروں سے جب لوگ تربیت کی غرض سے بیرون ممالک جاتے ہیں تو انٹرنیشنل لیول کی لکھائی پڑھائی ہوتی ہے اور انسان بہت کچھ سیکھتا ہے واپس آ کر اپنے ادارے کو اس کی پڑھائی اور تربیت سے فائدہ پہنچاتا ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ ہر وقت نظروں کے سامنے ہوتا تھا کسی بھی سڑک سے گزرو پہاڑ نظر آتا تھا گو کہ وہ ہم سے میلوں دور تھا لیکن اتنا اونچا اور بڑا تھا کہ دکھائی دیتا تھا۔