بحر متوسط اور کیبل کار

بارسلونا میں جو قابل فخر جگہیں میرے اپنے خیال کے مطابق میں نے دیکھیں وہ مائرو اور پکاسو میوزیم ہیں‘ پکاسو وہ عظیم مصور ہیں جن کا ذکر میں نے کتابوں میں پڑھا اور اس دیومالائی شخصیت کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان کے بنائے گئے ماسٹر پیس اپنی آنکھوں سے دیکھ سکے گا‘ ایک دو تین نہیں پورے کا پورا میوزیم‘ حیرت انگیز اور عقل کو دنگ کر دینے والا ہے‘ پکاسو کا اصل نام پابلو تھا‘ پکاسو اس کی ماں کا نام تھا اپنی ماں سے بے انتہا محبت کی بناء پر وہ ہمیشہ اپنی تصاویر پر پابلو پکاسو لکھا کرتے تھے اور اسی نام سے تصویری نمائش بھی کرواتے تھے بعد میں انہوں نے مستقل طور پر پکاسو نام کو ہی اپنا لیا۔ اس عظیم مصور کا ہر دور میں کیا ہوا کام پکاسو گیلری میں موجود ہے‘ شروع میں پکاسو صرف چہرے بناتا تھا اور اس میں بھی اس نے شاہکار تخلیق کئے پھر پکاسو نے تجریدی آرٹ میں نام پیدا کیا‘ کچھ عرصہ آرام کیا اس آرام کے دنوں میں بھی اپنی کرسی پر بیٹھ کر قدرتی حسن اور کبوتروں کی تصاویر بنائیں جو پکاسو کی یادگار تصاویر میں شمار ہوتی ہیں‘ کبوتر سپین کے ہر چوک اور ہر میدان میں دانہ چگتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ بھوک کے مارے ان کا دم نکلا جا رہا ہوتا ہے زمین پر آپ کے بالکل پاس آ جاتے ہیں مبادا ان کو آپ سے کھانا مل جائے۔ مکہ شریف میں حرم کے بالکل قریب کبوتر چوک کے کبوتر جن کی تعداد سینکڑوں میں ہوتی ہے اور جن کے لئے ہر حاجی اتنا اناج ڈالتا ہے کہ ان کو چگنے سے فرصت نہیں ملتی‘ سپین کے یہ 
پرندے ہر دفعہ مجھے حرم پاک کی یاد دلاتے رہے۔ دل چاہتا ہے پکاسو میوزیم میں بہت زیادہ وقت گزاروں‘ پکاسو کے بنائے Sculpures کو بس دیکھتی رہوں‘ آئیڈیا اور خیال کی بلندی ان عظیم فنکاروں پر ختم ہو جاتی ہے‘ کیسے ذہین اور فطین لوگ تھے جنہوں نے اپنی ساری زندگیاں فن کے لئے وقف کر دی تھیں اور آج بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے فن کے متوالے ان کے عظیم شہ پاروں سے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ کیبل کار میں بیٹھنے کا حسین تجربہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے‘ سمندر کے اوپر چلتی ہوئی یہ کیبل کار سپین کی ترقی کی جیتی جاگتی دلیل ہے‘ ایک لفٹ کے ذریعے کئی سو فٹ بلندی پر سیاحوں کو لے جایا جاتا ہے اور اس لفٹ سے گروپ کی صورت میں ان کو کیبل کار میں منتقل کیا جاتا ہے‘ نیچے میڈیرسنین یا بحر متوسط سمندر بہہ رہا ہے‘ کیبل کار کی اس سیر کے لئے سیاحوں کو تپتی دھوپ میں گھنٹوں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے کیونکہ سیاحوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے‘ ہم نے بھی اپنی باری کا انتظار کئی گھنٹے لائن میں لگ کر کیا‘ لفٹ کے ذریعے 
انتہائی بلندی پر پہنچے اور کیبل کار میں منتقل ہوئے‘ لوہے کے مضبوط رسے سے سمندر عبور کروایا گیا‘ سیاح ہزاروں فٹ کی بلندی پر رسوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں جن کو ظاہر ہے ایک طاقتور تکنیکی نظام کنٹرول کر رہا ہوتا ہے‘ یہ ایک دلچسپ اور خوبصورت تجربہ ہے ہم تو اس سے پہلے گھوڑا گلی اور پتریاٹہ کی ٹوٹی پھوٹی چیئر لفٹس کا نظارہ کر چکے ہیں جن کی بلندی سپین کی کیبل کار کی بلندی کے مقابلے میں مذاق کی حد تک کم ہے۔ سپین میں ایسے کئی میوزیم اور تاریخی مقامات ہیں جہاں کیمرہ لے جانا منع ہے اور تصویر بنانے کی سخت ممانعت ہے‘ تمام سیاح اس نظم و ضبط کی سختی سے پابندی کرتے ہیں‘ ہماری روزانہ کی سیر میں تین اہم جگہیں شامل ہوتیں اور ہمیں ہوٹل پہنچتے پہنچتے شام ہو جاتی‘ بیشتر لوگ دن کے وقت لنچ میں ہلکے پھلکے کھانے کی کوئی چیز لے لیتے اور سرشام ہی ڈنر سرو ہو جاتا ہے‘ صبح ٹھیک ساڑھے سات بجے ہوٹل سے چیک آؤٹ ہو کر اپنی بس میں ہم بیٹھ جاتے کہ سپین کے دارالحکومت میڈرڈ جانے کا سفر ٹرین میں کر سکیں یہ بلٹ ٹرین ہے اب تک ہم بارسلونا کے گلی کوچے اور سیر گاہیں تمام کھنگال چکے ہیں‘ پورے گروپ کا میڈرڈ جانے کا اشتیاق عروج پر تھا‘ بلٹ ٹرین کے ٹکٹ پہلے سے بک ہو چکے ہوتے ہیں اور ہماری گائیڈ بلٹ ٹرین کے صاف ستھرے سٹیشن پرسیاحوں 
کے ہجوم بیکراں میں ہمیں خدا حافظ کہنے کے لئے کھڑی رہتی ہے‘ خوبصورت ٹرمینل مقامی لوگ اور سیاح قطاروں میں ٹرین کے اندر بیٹھنے کے لئے قطار میں لگے کھڑے ہیں‘ ٹکٹ الیکٹرک مشین کے ذریعے چیک ہوتے ہیں اور ہم باری باری ٹرین کی طرف چل پڑتے ہیں‘ ہمارے گروپ کی سات خواتین کے ڈبے کا نمبر9 تھا‘ ایک ڈبے میں زیادہ سے زیادہ 30 مسافر ہوتے ہیں اور اس طرح بے شمار ڈبے ٹرین کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں‘ آرام دہ کرسیاں‘ سنٹر ٹیبل‘ کیفے ٹیریا‘ ٹی وی‘ ہیڈ فون‘ واش روم یہ تمام سہولیات ہمارے ڈبے میں موجود تھیں اس کے علاوہ سامان رکھنے کے لئے ڈبوں کے اندر ہی سیٹوں کے اوپر بڑے بڑے شیلف بنے ہوئے تھے جو بھاری بکسوں کو بھی اپنے اندر سمونے کی گنجائش رکھتے ہیں۔ سپین دوسرے تمام یورپی ممالک کی طرح ترقی یافتہ ہے اور مزید ترقی کی طرف گامزن ہے‘ وقت کی پابندی نے ان ممالک کو بے پناہ شعور دیا ہے‘ بلٹ ٹریک سے سپین کے دیہات دیکھنے کا یہ نادر موقع تھا‘ کاشتکاری اس ملک کا اہم ترین پیشہ ہے‘ بلٹ ٹرین کے چلتے ہی جریبوں کے حساب سے زمینیں کاشت کی ہوئی نظر آنے لگتی ہیں‘ 450 کلومیٹر کا فاصلہ ڈھائی گھنٹوں میں طے ہوا‘ ہمارے ملک کی ٹرینوں کی حالت کب سدھرے گی‘ میں سوچتی رہی ہوں میں اپنی زندگی میں شاید 30 سال بعد ٹرین کا سفر کر رہی تھی اور پھر بلٹ ٹرین کا سفر شاید میری خوش نصیبی ہے۔