ان لائبریریوں کا مرکز نگاہ ایک بچہ ہوتا ہے

 مغربی ممالک میں نوجوان اور بچوں کی دلچسپیوں کے مطابق آنے والی نسلوں کیلئے ایسی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں کہ ان کی محبت اور پیار آنے والی جنریشن کیلئے واضح طورپر نظر آتی ہے اور یہ پالیسیاں بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ترقی پذیر ممالک کے بچے شاید ان کم نسب مخلوق سے تعلق رکھتے ہیں کہ یا تو ان کو اغواء کیا جاتا ہے یا ظلم و ستم کیا جاتا ہے یا آسان الفاظ میں وہ دنیا کی سب سے بری نظر انداز دنیا میں جیتے ہیں مغربی ملکوں میں پبلک لائبریریاں ایک ہی صوبے کے وسائل ان پر ہی خرچ کرنے کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ خوبصورت باغ‘ لہلہاتی فصلیں‘ اونچے درخت اور وسیع و عریض لائبریری کے کمرے‘ خوبصورت شیلف‘ قیمتی صوفے میزیں‘ کرسیاں‘ آرام دہ سیٹیں‘ خوش اخلاق لائبریری کا سٹاف‘ ہر وقت خدمت کیلئے تیار‘ حیرت انگیز ہیں‘جس لائبریری میں کھڑی ہوں یہاں بچوں کا خوبصورت ترین سیکشن دیکھ کر حیران نہیں ہوں‘ رنگین کتابیں اپنی کھلی لمبی اوربھری ہوئی شیلفوں میں گویا اپنے ہونے کا یقین دلا رہی ہیں غریب امیر بچے اپنے ماں باپ کے ساتھ خوبصورت رنگ برنگی کرسیوں پر بیٹھے اپنی پسند کی کتابیں ہاتھوں میں پکڑے کتاب کے احترام اور پیار کو محسوس کر رہے ہیں اور یہی وہ احترام اور پیار ہے جو ان کے دلوں میں عمر کے آخری حصے تک قائم ودائم رہے گا‘ ان لائبریریوں میں کوئی بھی بچوں کے علاقے‘زبان‘غریبی امیری کے بارے میں اندازے نہیں لگاتا‘ بس اہم ترین مرکز بچے کی ذات ہوتی ہے‘ ایک لمحے کیلئے ہم اپنے ملک کو ذہن میں لائیں اور سوچیں کہ کیا کوئی ایسی پبلک لائبریری یہاں موجود ہے جس کامرکز نگاہ ایک بچہ ہو‘ وہ غریب اور امیر نہ ہو‘ وہ زبان اور حلیے  سے بالاتر ہو وہ نئی اور خوبصورت رنگین کتب کو ہاتھ لگانے اور پڑھنے کاحق رکھتا ہو‘ اس کے پرانے اور میلے کپڑے لائبریری کو گندہ کر دینے کے قصوروار نہ ٹھہرا دیئے جائیں‘شاید آپ بہت نگاہیں دوڑائیں آپ کو ایسا کسی شہر میں بھی نظر نہیں آئے گا‘ یہ ممالک ایسے ترقی یافتہ  ملک ایسے ہی نہیں بن گئے۔ وہ خوبیاں جو ترقی پذیر ممالک رات دن
 تلاش کریں تو ان کو خال خال نظر آئیں اگرچہ میں بچوں کے پورشن میں گئی نہیں لیکن ہنستے کھکھلاتے بچے کمپیوٹر پر اپنی پسندیدہ گیمز مجھے شیشوں کے پار کھیلتے ہوئے نظر آرہے ہیں‘ جاذب نظر پھولوں والا قالین اسی لئے بچھایا ہوا ہے کہ کبھی وہ زمین پر بیٹھ جاتے ہیں‘کتابیں گراتے ہیں اٹھاتے ہیں‘ اور بے شک وہ کوئی کتاب میز یا قالین پر ہی گرا کر چلے جائیں‘ یہاں بہت سے ایسے ورکر موجود ہیں جو ان کو دوبارہ حرف تہجہی کی ترتیب سے شیلفوں میں رکھ دینگے ماں باپ اپنے بچوں کو کتابوں کو ریکس میں رکھنے کی پوری تربیت دے رہے ہیں‘ یہاں میں نے ایک بوڑھی خاتون دیکھی دکھنے میں ہندوستانی خاتون لگ رہی ہے میں نے بات کرنے میں پہل نہیں کی لیکن وہ خود میرے قریب آئی اور اردو ہندی ملی جلی زبان میں بتایا کہ وہ مشرقی افریقہ سے تعلق رکھتی ہے اتنی نفیس اردو بولتے دیکھ کر مجھے وہ بہت اچھی لگی کتابوں سے بھری ہوئی ٹرالی کو دوبارہ شیلف میں رکھنے کیلئے جارہی تھی‘ کہنے لگی میں گزشتہ بائیس سال سے اسی لائبریری میں کام کر رہی ہوں اور اب میں صرف چند گھنٹے کام کرتی ہوں‘ ظاہر ہے اب اس کی بزرگی اس کو فل ٹائم کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہوگی‘ اسی نے مجھے اردو اور ہندی کتب کے سکشن دکھائے‘ اس نے اپنا روایتی لباس‘ چوڑیاں‘ مہندی‘ انگوٹھیاں سب  پہنے ہوئی تھیں مغرب میں لباس کو لے کر کوئی پابندی نہیں ہے آپ اپنی کام کی جگہ پر اپنی پسند کا لباس پہن سکتے ہیں لیکن سردی کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ ہر انسان گرم سینٹ جیکٹ اور
 انگلش لباس پہننے پر مجبور ہو جاتا ہے‘اس لئے کہ ہمارے لباس خصوصاً خواتین کے لباس سردیوں کی منفی درجوں کیلئے ناکافی ہوتے ہیں‘ خاتون سے بات کرکے اور اس عمر تک اس کے محنت کرنے کے جذبے کو دیکھ کر نیا حوصلہ ملا‘ لائبریری کی سخت کرسیوں پر بیٹھے بیٹھے تھک چکی ہوں اور میرا کھانے پینے کا ناکافی سامان بھی ختم ہو چکا ہے‘ میں نے تو خود ہی بیٹے کو کہا تھاکہ لائبریری رات9بجے بند ہوتی تو وہ کبھی بھی مجھے لینے آسکتا ہے لیکن میرے لئے اب مزید یہاں بیٹھنا ناممکن سا ہو رہا ہے میں اس ریک کی طرف آگئی جہاں کتابیں فروخت کا سائن لگا ہوا ہے بچوں کی ڈھیروں کتابیں برائے فروخت ہیں‘میں نے ان میں کچھ اچھی کتابوں کی اپنے پوتے پوتیوں کیلئے تلاش شروع کر دی‘ جب سے میں یہاں آئی ہوں میرا دل چاہتا ہے کہ کم از کم ان سب میں کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کی عادت ہی ڈال دوں کسی حد تک تو میں کامیاب بھی ہوں کیونکہ سکول میں بھی ان کو لائبریری میں بھیجا جاتا ہے کتاب ایشو کروائی جاتی ہے اور گھر لے جاکر پڑھنے کی ترغیب دی جاتی ہے کتاب پڑھنا ایسی عادت ہے کہ اگر بچوں کو آغاز سے تربیت دیں تو اندر جانے لگتی ہے سو میں نے چند کتب پسند کیں مختلف عمروں کے بچوں کی پسند کے مطابق اور ان کی قیمت صرف10سینٹ‘20سینٹ‘ اور50سینٹ ہیں یعنی10پیسے‘20پیسے اور50پیسے‘4ڈالر کی میں نے18کے قریب کتب خریدیں مجھے علم ہے کہ یہ کتابیں دیکھ کر میرے بچے کتنا زیادہ خوش ہونگے اس میں ایک کتاب ایسی بھی تھی جو کلاس میں بہترین گریڈ حاصل کرنے کے طریقوں پر مشتمل تھی میں نے لائبریری کے کاؤنٹر پر ان کتب کو رکھوادیا ابھی تو میرے گھر جانے میں بہت وقت ہے اور سوچا کیوں نہ قریبی مال کا ایک چکر ہی لگا آؤں اگرچہ مجھے میرا بیٹا سختی سے منع کر گیا تھا کہ میں نے لائبریری سے باہر نہیں جانا‘ ایک وجہ منفی سردی ہے اوردوسری وجہ یہ کہ کہیں میں راستہ نہ بھول جاؤں اورمیرے پاس فون موجودنہیں ہے۔