ماں بولی وہ میٹھی زبان ہے جو آپ پیدائش کے بعد ماں کی گود اپنی ماں کے منہ سے سنتے ہیں اس زبان میں ماں اپنے بچے کو لوریاں سناتی ہے اس کی تکلیف کو رفع کرنے کی کوشش کرتی ہے اس کے غوں غان کی آوازوں کا جواب دیتی ہے اور بچہ پہلا نفظ اپنی ماں سے ہی بولنا سیکھتا ہے اور پھر ارد گرد نانیاں دادیاں بہنیں رشتے دار سب اپنی پیاری ماں بولی میں ہی تمام بات چیت کرتی ہیں اس ماں بولی کے ساتھ وہ سکول میں د اخل ہوتا ہے جہاں قومی زبان سے اسکو واسطہ پڑتا ہے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو ابھی تک اپنی مادری زبان کو دل سے لگائے ہوئے جی رہے ہیں اور اس کو بولتے ہیں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے اگر اقوام متحدہ کی طرف سے مادری زبانوں کے عالمی دن منانے کی تاریخ کو چھیریں تو بدقسمتی سے اس کی تاریخ کے دکھ بھرے تانے بانے ہمارے اپنے ملک سے جا ملتے ہیں جو اتنے افسوس ناک ہیں کہ اگر ان صفحات میں تاریخ کے ان لمحات کو یاد کرونگی تو شاید میری تحریر قابل اشاعت ہی نہ رہے اس لئے میں اس کو آپ کی تحقیق پر چھوڑتی ہوں کہ یونیسکو اور اقوام متحدہ نے مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کب اور کیوں کیا یونیسکو کی ایک ریسرچ کے مطابق ماں کی زبان چاہے ایک ملین لوگ بولیں یا صرف 100لوگ یکساں اہمیت رکھتی ہے محققین نے اپنے بے شمار سرویز میں یہ ثابت کیا ہے کہ حقیقی تیزی سے مادری زبانیں دنیا سے گم ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں ایسا نہ ہو کہ ان کا تحفظ نہ کیا جائے تو صرف قومی زبانیں ہی باقی رہ جائیں جب کہ یہ دو ہفتے کے بعد ایک مادری زبان صفحہ ہستی سے مٹتی جا رہی ہے ہمارا ملک خوش قسمت ہے کہ یہاں چار صوبے اور ہر صوبے میں کئی کئی مادری زبانیں ہیں بدقسمتی سے میرا اپنا صوبہ مادری زبانوں کے غائب ہو جانے کی طرف کافی تیزی سے مائل ہے پختونوں کی اس ضمن میں ہمیشہ میں تعریف کر تی ہوں کہ انہوں نے اپنی مادری زبان پشتو کو اپنے بچوں کیساتھ بول کراس کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جو مادری زبان میری ہے ہندکوان ہندکو کو جس تیزی سے بولنا چھوڑ رہے ہیں مجھے ڈر ہے آئندہ دہائیوں میں یہ زبان پشاور سے غائب ہو جائیگی ہندکو زبان کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے اور اس کے بولنے والوں کے ساتھ امتیاز کرنے کا موضوع ایک ایسا وسیع مضمون ہے کہ اس پر ریسرچرز کو ضرور قلم اٹھانا چاہئے کہ ہندکو زبان یوں پشاور شہر سے مٹنا شروع ہوئی لیکن ابھی بھی ہندکو کوہاٹ‘ ڈیرہ اسماعیل‘اٹک‘ہزارہ‘ ایبٹ آباد میں زندہ ہے اور انشاء اللہ اگر والدین کو مادری زبان کی اہمیت کا شعور رہا تو ہندکو زبان کبھی بھی ختم نہیں ہو سکتی یہاں کینیڈا میں پنجابی سکھوں کو میں کریڈٹ دونگی کہ انہوں نے اپنی ماں بولی کو کس طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں ان کی زندگیوں کا اصول ہے کہ گھر سے باہر کوئی بھی زبان آپ بولیں انگلش‘فرانسیسی‘لاطینی گھر میں داخل ہوتے ہی گور مکھی زبان بولی جائے گی ہمارے بچے تو اردو عربی فارسی کوئی بھی زبان بھول کر سکول جاتے ہیں انگریزی میں ایسا گھوٹا لگاتے ہیں کیا مجال ہے گھر آکر بھی ان کی زبان اس زبان سے تعلق رکھتی ہو آپس میں انگریزی بولتے ہیں کھاتے پیتے ہوئے انگریزی میں بات کرتے ہیں ماں باپ سے انگریزی بول رہے ہیں اور ماں باپ کتنا خوش ہو رہے ہیں وہ وٹامن کھا رہے ہیں طاقت توانائی محسوس کررہے ہیں حتیٰ کہ ان پڑھ مائیں بھی ان کی انگریزی سمجھ کر اپنی زبان میں جواب دے رہی ہیں اور وہ بھی اپنی زبان سمجھ کر انگریزی میں جواب دے رہے ہیں زبان صرف بولنے کا نام تو نہیں ہے لکھنا پڑھنا بھی آنا ضروری ہے کسی زبان کی امیری اور اس کے ذخیرہ الفاظ کو لکھ پڑھ کر ہی سیکھا جاتا ہے اس لئے بدقسمتی سے یہاں بہت سی ایسی اقوام ہیں جن کی مادری زبانیں اس موجودہ نسل کے بعد غائب ہو جائینگی میں جب سکھ بچوں سے ان کے ماں باپ دادا دادی سے بات کرتی ہوں حیران ہو جاتی ہوں پکی پنجابی بولتے ہیں وہ بچے اتنی ہی اچھی انگریزی بھی بولتے ہیں لیکن گھر کے اندر نہیں گھر کے باہر سکھ کتنے ہی بڑے بڑے عہدوں پر یہاں موجود ہیں یہاں تک کہ سیاست میں اہم ترین عہدوں پر ہیں لیکن اپنی زبان کو کبھی بھی نہیں بھولتے کسی زبان کے زندہ رکھنے کے لئے کسی تحریک جلسے جلوس سوسائٹی اکیڈیمی بنانے کی کوئی ضروت نہیں ہوتی صرف اور صرف یہ ترغیب دیں کہ بچوں سے اپنی زبان بولیں زبان نسلوں تک زندہ رہے گی جب بچے اس کو بول کر احساس بدتری محسوس کریں تو اس زبان کا ذخیرہ الفاظ بڑھتا جائے گا آخر میں یہ مزید کہنا چاہتی ہوں کہ براہ مہربانی کسی کی بھی مادری زبان کو برا نہ سمجھیں مذاق نہ اڑائیں آپ کا تمسخر اس زبان کیلئے زہر کی مانند ہوتا ہے کیاں آپ چاہیں گے کہ آپ کی ماں کا مذاق اڑایا جائے ہرگز نہیں چاہئیں گے مادری زبان کا مذاق اڑانا ماں کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے جس شخص نے بھی اپنی ماں کا احترام کیا وہ اپنی زبان اپنی ماں کی زبان کو کبھی نہیں چھوڑے گا مادری زبان صرف ایک دن کو اس کی اہمیت بنانے کیلئے منایا جاتا ہے لیکن ہر دن ماں کا ہوتا ہے چاہے وہ منوں مٹی تلے سو رہی ہو چاہے وہ آپ کو گلے لگا کر پیار کر رہی ہو اپنی ماں اور اس کی بولی کو آپ نے خود زندہ رکھنا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
یہ کچھ کچھ ہم سے ملتے جلتے ہیں
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
آنسو آنکھوں میں ویسے نہیں آتے
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ماں بولی کابین الاقوامی دن
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ماؤنٹ ایورسٹ کی چوٹیاں اور مظلوم مزدور
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو