پبلک مائن سٹیٹ آرکنساس امریکہ

آرکنساس امریکہ کی ایک نہایت مشہور ریاست ہے جو امریکہ کے جنوب مغرب میں واقع ہے‘ دنیا کی بڑی معدنیات کی کانیں یہاں موجود ہیں‘ اس کی مشہوری اس لئے ہے کہ یہ دنیا بھر میں پائی جانے والی چند عوامی ملکیت کی کانوں کی ریاست کے طور پر مشہور ہے۔ یہاں لاوا اگلتے پہاڑ ہیں‘ لاوا اگلنے کے اوقات مقرر تو نہیں ہوتے جب پہاڑ لاوا اگلنا شروع کرتے ہیں زمین کے اندر سے کتنی ہی معدنیات اگل کر ساتھ لے آتے ہیں۔ آرکنساس کے یہ پہاڑ معدنیات لاوے کی صورت میں جب اگلتے ہیں تو زمین سے ہیرے اور نایاب موتی بھی ساتھ لے آتے ہیں۔ حکومت آرکنساس نے وسیع و عریض رقبہ کھلا چھوڑ دیا ہے اور اس پر ٹکٹ لگا دیا گیا ہے یہ علاقہ عوام کے لئے چھوڑ دیا گیا ہے جس کا دل چاہے وہ اس وسیع و عریض رقبے میں ہیرے جواہرات ڈھونڈ سکتا ہے جو اس کی اپنی ملکیت بن جاتے ہیں۔ انتظامیہ کے دفاتر اس ہیرے یا موتیوں کو پرکھنے‘ وزن کرنے اور اس کی مالیت بتانے کے لئے ماہرین کے ساتھ موجود ہوتے ہیں جو جواہر عوام ہمت کر کے ڈھونڈ نکالتی ہے وہ سب اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ 1972ء سے لے کر 2022ء تک 33000 ہیرے عام عوام ڈھونڈ کر لے جا چکی ہے‘ لیکن یہ سب ہیرے سائز میں بہت چھوٹے تھے لیکن ہیرے ملنے کا تناسب بہت ہی کم ہے‘ 10 ہزار لوگوں میں سے صرف ایک شخص ہی وہ خوش نصیب ہوتا ہے جس کو قسمت یاوری کر کے ہیرے موتیوں سے نواز دیتی ہے اور وہ راتوں رات امیر ہو جاتا ہے۔ آرکنساس میں مرفری بورو اسٹیٹ پارک کے قریب ایک چھوٹا 
سا ٹاؤن ہے اور ہیروں کی معدنیات اور کانوں سے بھرا ہوا ہے‘ یہاں ایک بہت معلوماتی عجائب گھر بھی ہے جہاں یہاں سے نکلنے والے بڑے ہی نایاب ہیرے‘ کان کنی کے آلات اور بہت سی جادوئی کہانیاں موجود ہیں جو ہیرے دریافت کرنے کے بارے میں ہیں۔ ایسی ہی ایک جادوئی کہانی آپ کے لئے میں بھی لے کر آئی ہوں‘ ورجینیا میں ایک نوجوان لڑکا رہائش پذیر تھا اس نے بھی آرکنساس ریاست اور اس کی معدنیات کے بارے میں پڑھ رکھا تھا‘ اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ پروگرام بنایا کہ وہ دونوں جائیں گے اور اپنی ہونے والی منگیتروں کے لئے کچھ ایسے جواہر اکٹھے کریں گے جن سے وہ اپنی شادی کے لئے ہیرے اور سفائر سے سجی ہوئی انگوٹھیاں تیار کریں گے‘ انہوں نے سکول کی چھٹیوں کے دوران اس ایڈونچر کا آغاز کیا اور مرفری بورو اسٹیٹ پارک میں پہنچ گئے‘ اس مقصد کے لئے انہوں نے اپنے بیگ میں کپڑے‘ کھانے کی اشیاء رکھیں‘ انہیں معلوم نہیں تھا ان کو وہاں کتنے دن لگیں گے کہ وہ ایکڑوں پر پھیلے ہوئے علاقے سے اپنے مطلوبہ موتی اور جواہر ڈھونڈ نکالیں گے لیکن ان کا ارادہ اتنا پختہ تھا کہ 
انہیں یقین تھا کہ وہ خالی نہیں آئیں گے اور ان کا یہ سفر کامیاب ہو گا۔ کرسچین ٹون اور ٹکر (Tucker) نے پبلک اسٹیٹ مائن پارک میں قدم رکھا‘ کاؤنٹر سے 10, 10 ڈالر کا ٹکٹ خریدا اور پارک کے اندر داخل ہو گئے‘ پارک کے اندر رہنے کے لئے ہٹ اور کھانے پینے کی اشیاء کے سٹال بھی تھے اور جتنی راتیں بھی کوئی قیام کرے کر سکتا ہے کیونکہ جواہر کوئی سامنے تو نہیں پڑے ہوتے‘ اس کے لئے انہوں نے مٹی کھودنی تھی‘ بہت پیدل چلنا تھا‘ تب ہی کہیں وہ کامیاب ہو سکتے تھے اور جتنی زیادہ وہ معدنیات کو کھودنے کا کام کر سکتے ہیں کریں گے تو کچھ امید پیدا ہو سکتی تھی۔ کھودنے اور معدنیات کو ڈھونڈنے کے مخصوص آلات ہوتے ہیں جو ٹکٹ لیتے ہوئے ہر ایک کو مل جاتے ہیں۔ کرسچین ٹون کو ان چیلنجز کے بارے میں پوری طرح علم تھا کہ وسیع و عریض مٹی کی زمین کے ٹکڑوں کو کھودنا اور کچھ کامیابی حاصل کرنا جان جوکھوں کا کام ہے لیکن وہ اپنے عزم میں بڑا مضبوط تھا‘ سب سے پہلے وہ ہیلینا (Helena) مونطانہ کے علاقے میں گئے جہاں ان کو کچھ بہت چھوٹے چھوٹے سفائر موتی مل گئے تھے جو نہایت خوبصورت تھے‘ ٹون کا خیال تھا اگر ہیرا یا ہیرے مل جاتے ہیں تو یہ سفائر ان کے ارد گرد لگواؤں گا‘ 10ڈالر کا ٹکٹ اور مائننگ کے اوزار حاصل کرنے کے بعد وہ ہیروں کی تلاش میں سرگرداں رہے‘ اس مقصد کے لئے دونوں دوستوں نے تین دن اور تین 
راتیں پارک میں گزار دیں اور کھانے پینے کی بنیادی باتوں کے علاوہ ہیروں کی تلاش جاری رکھی‘ ان کے سامنے بے شمار خواتین اور حضرات موجود تھے جو مختلف جگہوں کو منتخب کر کے کھدائی کے کام میں لگے ہوئے تھے‘ دو دن دو راتیں گزر چکے تھے دونوں دوستوں کو رتی برابر کامیابی نہیں ہو رہی تھی‘ تیسری صبح تھی وہ بالکل بھی مایوس نہ تھا نہ جانے اس کو کیوں یقین تھا کہ وہ کچھ نہ کچھ ضرور حاصل کرے گا اچانک کرسچین ٹون نے خوشی سے اپنے دوست کو ایک جگہ پر اشارہ کر کے بتایا کہ مجھے یہاں چمک نظر آئی ہے اسی جگہ کو کھودتے ہیں‘ ان کی سفٹنگ سکرین کے اوپر زمین کے اندر کا کچھ چمکدار حصہ نمودار ہو رہا تھا‘ مٹر کے دانے سے کچھ بڑا ہیرا ان دونوں دوستوں نے کھود نکالا تھا‘ کرسچین ٹون لکھتا ہے کہ میں اتنا سرشار ہوا کہ میرا جسم کانپنے لگا‘ میرا دوست بھی حیران ہو گیا جب اس نے ہیرا دیکھا‘ یہ کچھ کچھ چکنا بھی تھا اور نہایت چمکدار تھا لیکن وہ دونوں پھر بھی کچھ کچھ شبہے کا شکار تھے کہ یہ ہیرا ہے بھی کہ نہیں‘ دونوں تیزی سے پارک کے دفتر کی طرف چل پڑے یہ 2.2 قیراط کا زرد ہیرا تھا‘ آفس کے لوگوں اور ماہرین نے ان کو بتا دیا تھا یہ بیس ہزار ڈالر ایک قیراط کی قیمت کا تھا‘ ہاں رنگ کٹائی اور صفائی کا کام ہونا تھا‘ کرسچین ٹون کے قریب اس کی قیمت اہم نہ تھی ”میں نے اپنی محنت سے کھدائیاں کر کے کامیابی حاصل کی تھی“ وہ سوچ رہا تھا اس کا عزم‘ یقین اتنا پختہ تھا کہ آخر کار اس نے میدان مار لیا تھا اور وہ ان ہزاروں لوگوں میں شامل ہو گیا تھا جن میں سے صرف ایک یا دو کو کامیابی ملتی ہے۔