جب ہماری گلی میں جامن والا آواز لگاتا تھا‘ کالے کالے جامن گریاں والے تو اسکی چھابڑی میں موٹے موٹے کالے جامن موجود ہوتے تھے‘ پرانے اخباروں کے ٹکڑے ایک طرف رکھے ہوتے تھے اور نگ کی شیشی بھی ساتھ پڑی ہوتی تھی‘ گھروں سے کتنے ہی بچے بڑے نکل آتے تھے اور دو آنے‘ چار آنے‘ آٹھ آنے‘ ایک روپے کے جامن خریدنا شروع کر دیتے تھے بعد میں صدر ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں کرنسی آنوں کی بجائے پیسوں میں تبدیل ہو گئی تھی اور ناپ تول کا تمام نظام اعشاری نظام میں بدل گیا تھا۔ ان جامنوں کی موٹائی اور مٹھاس آج تک نہیں بھول سکتی‘ جو پھل فروٹ پشاور اسکے گرد و نواح کو قدرت نے عنایت کئے ہیں شاید دنیا کے بہت سے حصے اس سے محروم ہیں جب کہیں نایاب شے موجود ہو تو ان کو خود سے مقامی طور پر اسکی قدر و منزلت کا احساس نہیں ہوتا‘ بس یہی حال پشاور والوں کا ہے انہیں معلوم ہی نہیں کہ قدرت نے کیسے کیسے فروٹ ان کو عطا کر دیئے ہیں‘ جامن تو ایک پھل ہے اوروں کا ذکر کرتے ہیں‘ فروٹ کی ریڑھیوں پر بڑے بڑے گرمے میری عمر اور بعد میں بھی آنیوالوں کو ضرور یاد ہوں گے اور پھر اسی بادشاہانہ سائز کے سردے بھی کیسے بھولے جا سکتے ہیں‘ جو آلوچہ اکبر پورہ‘ ترناب فارم اور دوسرے نسبتاً چھوٹے دیہات میں اگتے ہیں اور پشاور کی منڈیوں میں آتے ہیں ایسا آلوچہ کبھی میں نے کسی شہر یا ملک میں نہیں دیکھا‘ گوشتی رنگ کا آلوچہ جس میں سے جامنی رنگ کا عکس چھلک چھلک پڑتا تھا۔ میں جب بھی اسلام آباد جاتی جی ٹی روڈ پر کھڑے ہوئے فروٹوں کے سوداگروں سے بڑے بڑے گرمے‘ سردے‘ سندر خانی انگور‘ آلوچے ضرور لے جاتی تھی‘ پنجاب میں کابل کا سندرخانی انگور نایاب ہے یہاں کا انگور کھٹا ہوتا ہے یہ عالی شان پھل اپنے اندر خاص ذائقہ‘ مٹھاس اور مزہ رکھتے ہیں‘ اٹک سے پار ہوتے ہی یہ سب کچھ نہایت قیمتی اور ناپید ہو جاتا ہے۔ پشاور کے خربوزوں کی مٹھاس اور زرد رنگ کسی اور چیز میں نظر نہیں آتا اور نرم بیجوں سے بھرا ہوا
میٹھا خربوزہ پشاور سے باہر کبھی نظر ہی نہیں آتا۔ مغرب میں اتنا عرصہ گزرا دنیا کے ہر ملک کا یہاں پھل فروٹ آتا ہے لیکن نہ کبھی وہ آلوچہ نظر آیا جو پشاور میں دیکھا اور کھایا نہ گرما اور سردا دیکھا نہ سندر خانی انگور‘ یہاں ہر قسم کا پھل ہے بس کھاتے ہوئے لگتا ہے کچھ ہے جو اس میں نہیں ہے یعنی انگریزی کا لفظ یاد کروں تو کچھ Missing ہے بلکہ بہت کچھ مسنگ ہے‘ ہمارا سندھ اور جنوبی پنجاب بہت امیر کبیر ہیں کہ ایسا آم دنیا میں کہیں بھی نہیں‘ سرگودھا جیسا مالٹا کہیں نہیں لیکن ہمارے خیبر پختونخوا کے خانپور کے سرخ مالٹے کون بھلا سکتا ہے‘ جو فروٹ میں نے پاکستان میں اپنے پیارے شہروں میں کھایا پھر کہیں نہیں کھایا۔ میرے نانا انگور کے ساتھ روٹی کھاتے تھے اور خربوزے کے ساتھ بھی روٹی کھاتے تھے‘ میری ماں کو پشاور میں خربوزہ اتنا زیادہ پسند تھا کہ کچھ بھی ہو دوپہر میں خربوزہ دستر خوان پر ضرور رکھتی تھیں۔ مغرب میں چائنیز خربوزہ دیکھ کر اپنے پیارے شہر کا میٹھا خربوزہ ضرور یاد آ جاتا ہے‘ میکسیکو کا کھٹا آم کھا کر اپنا چونسہ آم کہاں بھولا جا سکتا ہے‘ ایک گراسری سٹور پر کیشئر کی جاب کے دوران جب بھی کوئی آم کیش کاؤنٹ پر لاتا اور میں اسے مشین پر رکھتی تو مشین پر یہ لائنیں لکھی ہوئی آ جاتیں Be careful this is mango اور وہ سڑا ہوا آم دیکھ کر میں دل ہی دل میں مسکرا دیتی‘ بھلا تم لوگوں نے آم دیکھا ہی کہاں ہے۔گرمے اور سردے کا ذائقہ تو انسان کو پاگل کر دیتا ہے۔ قدرت نے پشاور کو کیا کیا نعمتیں عطاء کی ہیں اور وہ بھی ایسی سستی کہ غریب امیر ہر ایک کی پہنچ میں یہ فروٹ ہے۔ اکبر پورہ سے گزرتے ہوئے جو چپل کباب کبھی کھاتے تھے وہ ہمیشہ یادوں میں محفوظ ہیں‘ ایک رش ہوتا تھا‘ لوگ نہ صرف کھاتے تھے بلکہ کئی کئی کلو ساتھ بھی لے کر جاتے تھے‘ ہم بھی انہی لوگوں میں شامل تھے۔ لگتا ہے ابھی کل ہی کی تو بات ہے‘ وقت کیسا جلدی اڑتے ہوئے گزر جاتا ہے‘ جو روٹی تندور کی پشاور کی تھی دنیا میں کہیں ایسی روٹی نہیں تھی‘ کلچے کس کو بھول سکتے ہیں اور سستے اتنے کہ کوئی خاتون بھی آٹا توا گھر میں رکھنے کا تکلف نہیں پالتی تھی۔ اٹک سے ذرا پہلے خیر آباد کی مچھلی‘ نمک منڈی کی کڑاہیاں سب ناقابل فراموش ہیں‘ جو سوئے بیر پشاور میں ملتے ہیں کہیں بھی ایسے میٹھے اور بڑے بیر نہیں ہیں‘ پشاور یادوں میں رہتا ہے۔