جو آنا لینسن انگریز عورت ہے وہ ہر موسم گرما میں ماؤنٹ ایورسٹ جاتی رہتی ہے اس کا کتا آسکر ہمیشہ اس کے پاس ہوتا تھا جوآنا کو ہمیشہ جانوروں کی محبت اور ہمدردی سے پہچانا جاتا تھا آسکر ایک تیزرفتار گاڑی کی ٹکر سے مر گیا جوآنا کئی دنوں تک اس کاغم نہیں بھلا سکی تھی وہ آسکر کے بعد بھی جانوروں سے محبت کرتی رہی ان کو مصیبت میں دیکھ کر ان کی مدد کرتی رہی ماؤنٹ ایورسٹ کا مالک نیپال بھی ان ممالک میں شامل ہے جہاں کتے اور بلیاں آوارہ پھرتے ہیں اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا کسی کو ان کی بھوک پیاس پر ترس نہیں آتا اور ہر طرف سے ان کو دھتکاراہی جاتا ہے نیپال میں مغرب کے ہر ملک کا سیاح موجود ہوتا ہے ماؤنٹ ایورسٹ اپنے اندر ایسی خوبصورتی اور کشش رکھتا ہے جس کی وجہ سے نیپال کی سیاحت عروج پر ہے اور اس غریب ملک کی تمام تر دولت کا انحصار اسی صنعت پر ہے یہ آوارہ جانور مغربی ممالک کے سیاحوں کا پیار اپنے لئے محسوس کرتے ہیں تو وہ روٹی ملنے کی آس میں ان کے پیچھے پیچھے چلتے رہتے ہیں مغربی ممالک کے لوگوں کا جانوروں کیلئے پیار لائق تحسین ہے سڑک پر کوئی جانور گزر رہا ہوتوساری ٹریفک کو جیسے بریک لگ جاتا ہے یہ سیاح نیپال میں ریبیز کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ان کو پیار کرتے ہیں کھانا کھلاتے ہیں یہ جانور ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے ماؤنٹ ایورسٹ پہاڑ کے دامن میں پہنچ جاتے ہیں آج کی کہانی اسی انگریز عورت لینسن جوآنا کی ہے جو جانوروں کو خوراک اور علاج معالجہ مہیا کرتی ہے اسکو اینمل ایکٹوسٹ کے طور پر جانا جاتا ہے رپیRuppee کو اس نے لداخ کے ایک گٹر میں دیکھا تھا وہ اس گٹر کے ڈبے سے خود نہیں نکل سکتا تھا جوآنا نے اسکو نکالا اس کی مرہم پٹی کی وہ زخمی تھا اور بھوکا بھی۔ آسکر کی موت کے بعد جوآنا کے دل میں رپی کیلئے زیادہ ہمدردی تھی اس نے رپی کو اپنا لیا وہ ہندوستانی تھا لیکن پہاڑوں کے دامن میں رہنے والا کتا تھا
اس کو ماؤنٹ ایورسٹ کی سردی اور نوکیلی چوٹیوں سے محبت تھی شاید کوئی عام کتا ہوتا تو وہ سردی اور پتھروں پر چلنے سے قاصر ہوتا لیکن رپی شاید پیدائشی ماؤنٹیٹنیئر تھا رپی کی عمر8مہینے تھی جوآنا کو ہمیشہ اپنے جانور کوپہاڑوں تک لانے کیلئے لمبے جہازوں والے روٹ لینا پڑتے تھے کیونکہ ہر جہاز پالتو جانور کے سفر کی اجازت نہیں دیتا اسی طرح وہ ماؤنٹ ایورسٹ پر جانے کیلئے اپنے سامان کے علاوہ اپنے جانور کے لئے بھی پورٹر کا بندوبست کرتی‘ اسکا کھانا پینا میڈیکل ایڈ اور دوسرا ضروری سامان علیحدہ پورٹر پہاڑ کی بیس تک لے جانے میں اسکی مدد کرتا پورٹرز بک کرنے کا مطلب زیادہ اخراجات ہوتا ہے لیکن جوآنا رپی کاماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھنے کا جوش اور جذبہ جانتی تھی وہ اپنی ڈائری میں لکھتی ہے کہ شاید رپی انہی پہاڑوں میں پیدا ہوا اس لئے اسکو اونچائی کی طرف ٹھنڈسے برف و نوکیلے پتھروں پر چلنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی یہ2013 کی بات ہے جب مغربی دنیا کے بڑے بڑے اخباروں نے اپنی شہ سرخیوں میں لکھا کہ دنیا کا پہلاکتا جس نے ماؤنٹ ایورسٹ فتح کیا‘ اور یہ رپی تھا جو23,389 فٹ سمندر کے لیول سے اوپر چڑھنے میں کامیاب ہوا‘ اور پھر صحیح سلامت نیچے زمین پر بھی آیا‘ جوآنا اینمل رائٹس ایکٹوسٹ ہونے کے ناطے اپنے اس کارنامے پر خوش ہے کہ لداخ کے ایک گٹر میں ملنے والا بے یارومددگار جانور مغربی اخباروں کی شہ سرخیوں
میں آگیا‘ اور شاید رپی کو بھی علم نہ تھا کہ وہ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دے گا‘ اس سے پہلے بھیMena مینانامی کتے نے ماؤنٹ ایورسٹ پر چڑھائی کی تھی لیکن اس کا فاصلہ کم تھا رپی نے سب سے زیادہ فاصلہ طے کرکے اس کا ریکارڈ توڑ دیا پڑھنے کو اور کہنے تو یہ ایک عام سے جانور کی کہانی ہے لیکن میں سمجھتی ہوں یہ ہمدردی‘پیار‘ مدد کرنے‘ جانوروں سے اپنائیت کی مثال ہے جانوروں سے محبت کرنا‘ بے زبان جانوروں کو پانی پلادینا‘ روٹی کھلا دینا ثواب ہے بدقسمتی سے ہم بھی ان ہی لوگوں میں شامل ہیں جو جانور کو دھتکارتے ہیں اور اسکو پتھر مارتے ہیں ترکی کی ایک سیاحت کے دوران ہمارے ایک ساتھی نے ایک راہ چلتے کتے کو پتھر ماردیا ہمارا یہ ساتھی بہت پڑھا لکھا انجینئر تھا ہمارا ترک گائیڈ غصے سے بھرگیا اور اس نے ہمارے گروپ کا کوئی لحاظ پاس نہیں کیا اور کتنے ہی منٹس تک تکرار جاری رہی کہ بے زبان کو پتھر کیوں مارا‘ اور میں سمجھتی ہوں یہ بات صحیح ہے اگر ہم جانور کو کھانا نہ دے سکیں تو اسکو پتھر مارنے کا بھی ہمارا کوئی حق نہیں ترکی کی ایک مشہور مسجد جہاں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزار ہے میں نے نماز پڑھتے ہوئے اپنی صفوں میں خوبصورت بلی دیکھی جو اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کسی بھی نمازی عورت نے اسکو مارنے کی کوشش نہیں کی ہر ایک نے نماز پڑھی بلی بیٹھی رہی اور مسجد کا ہال خالی ہوگیا میری ایک گاؤں کی ساتھی کی گائے کا بچہ بیمار تھا میں نے اسکو ایسے آنسوؤں سے روتا ہوا دیکھ کر گمان کیا جیسے کہ اس کا اپنا سگا بچہ بیمار ہے رپی کو گٹر سے نکالنے سے لے کر ماؤنٹ ایورسٹ کا فاتح بنانے تک کی کہانی مجھے کتنے ہی جانوروں سے شفت اور کتنے ہی جانوروں سے ظلم کے سلوک کی کہانیاں یاد دلاگیا رپی آج بھی جوآنا کے پاس ہے شاید اسکو اپنی فتح کے بارے میں کوئی نالج نہ ہو لیکن وہ جوآنا کو جانتا ہے جانور کبھی اپنے مالک کو نہیں بھلاسکتا۔