داستان ایک محل کی

دسویں صدی عیسوی میں مدینتہ الذہرہ 244ایکڑ پر پھیلی ہوئی یورپ بھر میں قابل دید عمارتوں میں سے ایک عمارت تھی‘سپین کے آرکیالوجی کے محکمے نے انیسویں صدی میں مٹی کے ڈھیروں میں سے مدینتہ الذہرہ کے کھنڈرات کو برآمد کیا‘بعدازاں یونیسکو نے اس کو تاریخی ورثہ قرار دے دیا عبدالرحمن سوئم نہ صرف پورے یورپ کے حکمرانوں پر اپنی سیاسی اور انتظامی دھاک بٹھانا چاہتا تھا بلکہ وہ مشرق وسطیٰ میں اس وقت کے تخت نشین عباسی خلفاء کو بھی اپنی طاقت‘ ریاست اور مال و دولت سے بھرے ہوئے خزانے دکھانا چاہ رہا تھا مدینتہ الذہرہ محل کے تین حصے تھے سب سے اوپر خلیفہ عبدالرحمن کا ذاتی محل تھا جس میں اس کے خاندان کے افراد رہتے تھے ان کے ذاتی رہائشی کمرے اور دالان تھے اس سے نچلی منزل پر خلیفہ کے ساتھ مختلف ممالک سے آئے ہوئے وفود کی ملاقات کروائی جاتی تھی ان غیر ملکی نمائندگان کو مختلف گیلریوں اور غلام گردشوں سے گزار کر دیوان خاص میں لایا جاتا تھا جو اس وقت کے سفراء اور امراء کو بہت زیادہ مرعوب کردیتا تھا جب وہ سب بیٹھ جاتے تھے تو خلیفہ عبدالرحمن سوئم کی تشریف آوری کا اعلان کیا جاتا تھا عبدالرحمن انتہائی سادہ لباس اور سادہ عبائے میں ہوتا تھا ان کی سادگی دیکھ کر یورپ کے بادشاہوں اور ملکاؤں کے شاہانہ لباس فاخرہ بھی ماند پڑ جاتے تھے اس وقت کی عظیم ترین اور طاقت ور ترین سلطنت کا مسلمان خلیفہ اس قدر سادہ زندگی بسر کرتا ہے یہ بات ہر ایک کیلئے باعث حیرت ہوتی تھی اس محل کے سب سے نچلے حصے میں خلیفہ عبدالرحمن کے فوجی و سپاہی دوسرے امور سلطنت اور انتظام سنبھالنے والے لوگوں کے دفاتر اور رہائشی کمرے ہوتے تھے جہاں نہ صرف پورے محل کے کھانے پینے کے انتظام و انصرام کیلئے کام کیا جاتاتھا بلکہ میں ہر سینکڑوں کی تعداد میں چاق و چوبند عملہ24گھنٹے اپنے اہم سرکاری فرائض سرانجام دیتا تھا اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ زندگی گزارتا تھا مدینتہ الذہرہ میں کئی ایکڑوں پر پھیلے ہوئے باغات‘ چشمے اور تالاب بھی تھے جن کے سیراب کرنے کیلئے پانی شمال سے16کلومیٹر کے فاصلے سے زمین دوز نالیوں اور پائپوں سے لایا جاتا تھا عربی تاریخ دانوں کے مطابق جب مدینتہ الذہرہ بن رہا تھاتو اس کے تعمیراتی میٹریل کیلئے دس ہزار مزدور2600 خچروں اور400 اونٹوں کی مدد سے روزانہ ماربل کا پتھر اور دوسرا استعمال ہونے والا تعمیراتی سامان میدانوں سے پہاڑوں کی طرف لاتے تھے خلیفہ کے محل میں قیمتی قالین بچھے تھے اور خاص قسم کے مرکری بلب لگے ہوئے تھے جن کی خوبصورت روشنیاں دالانوں کو روشن کرتی تھیں اورمہمانوں کو حیرت زدہ کردیتی تھیں خلیفہ عبدالرحمن کا محل ملٹی کلچرل سوسائٹی کا نمونہ تھا ضروری نہیں تھا کہ صرف مسلمان دانشور ہی خلیفہ عبدالرحمن کو یا اندلس کے دوسرے خلفاء کو عزیز تھے یہودی اور عیسائی سکالر بھی مسلمان خلفاء کے قریب ترین ساتھیوں میں سے تھے ہر مذہب کے لوگوں کو اپنے اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے اور زندگی کے دوسرے معاملات پورے کرنے کی مکمل اجازت تھی‘ سن961ء میں خلیفہ عبدالرحمن سوئم وفات پاگیا اس کی وفات کے صرف40سال بعد ہی 1010ء میں مدینتہ الذہرہ کا صرف نام رہ گیا اور یہ عظیم الشان محل کھنڈرات کا ڈھیر بن گیا یہ سچ ہے کہ ہر عمارت کی زندگی اور شان و شوکت بھی انسانوں کے ساتھ ہی زندہ ہوتی ہے ورنہ عمارتیں سوائے اینٹیں اور ریت گارے کے کچھ بھی نہیں ہوتیں اور پھر گردش زمانہ نے دیکھا کہ مدینتہ الذہرہ کے محل نہ صرف کھنڈرات بن گئے بلکہ زیر زمین کہیں غائب ہوگئے‘اندلس میں تقریباً تمام تباہ حال عظیم مساجد‘ پر شکوہ‘ لائبریریاں اور اپنے اپنے زمانے کے عظیم محلات اور ان کے کھنڈرات کو یونیسکو کی طرف سے عظیم قومی ورثہ قرار دیاگیا ہے اس کے علاوہ سپین کے عیسائی بادشاہوں کے محلات قبرستان‘ عبادت خانوں اور عجائب گھروں کو بھی یونیسکو بین الاقوامی ورثہ قرار دے چکی ہے ہمارے گائیڈ نکولس نے مدینتہ الذہرہ کے کھنڈرات دکھانے کیلئے ایک مقامی گائیڈ مارگریٹ کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں‘ وہ ہماری بس کی کسی گزرگاہ میں ہمارے انتظار میں کھڑی ہے مارگریٹ درمیانی عمر کی خوبصورت گوری چٹی عورت ہے ہیٹ پہنا ہوا ہے اس نے آتے ہی نہایت پیشہ ورانہ طریقے سے مائیکروفون ہاتھ میں لے لیا ہے ہمیں خوش آمدید کہا ہے اور مدینتہ الذہرہ کی تاریخ جغرافیہ بتانے لگی ہے ہماری بس بہت وسیع و عریض پارکنگ میں پہنچ چکی ہے ہمارے ساتھ دوسرے ممالک کے سیاحوں کی بسیں بھی رکی ہیں ہم کافی پیدل چل کر مدینتہ الذہرہ کے کھنڈرات تک پہنچے یہ ایسے کھنڈرات ہیں جن کو پہاڑ کے اوپر چڑھ کر نیچے گہرائی میں دیکھا جاتا ہے‘ اگر چہ یہ کھنڈرات پہاڑوں پر ہیں لیکن ان سے بھی اوپر بلندی پر جاکے محل کے تباہ شدہ ستون‘ کمرے اور دالان دیکھے جا سکتے ہیں اس لئے کہ ان  کھنڈرات میں ابھی تک کھدائی کا کام جاری ہے اور اس کام کے مکمل ہونے تک سیاحوں کو ان کے قریب جانے نہیں دیا جاتا ہے‘ میں نے دیکھا کہ یہاں بادام اور انجیر کے درختوں کی بہتات ہے‘ عبدالرحمن نے مدینتہ الذہرہ میں کھجور کا درخت اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا یعنی سرزمین اندلس میں عربوں کے دیس کا یہ پہلا درخت تھا عبدالرحمن اپنی کتاب تاریخ المقری میں کھجور کے اس درخت کیلئے عربی زبان میں چند اشعار کہے تھے جن کا ترجمہ علامہ اقبال نے اپنی کتاب بال جبریل میں مندرجہ اشعار کی صورت میں کیا ہے۔ میری آنکھوں کا نور ہے تو‘ میرے دل کا سرور ہے تو۔ اپنی وادی سے دور ہوں میں‘ میرے لئے نخل طور ہے تو۔ مغرب کی ہوا نے تجھ کو پالاصحرائے عرب کی حور ہے تو‘ پردیس میں ناصبور ہوں میں۔ پردیس میں ناصبور ہے تو....لیکن اب یہ کھجور کا درخت کہیں نظر نہیں آرہا ہے یقینا وقت کی گردش نے اس درخت کو بھی خزاں کے حوالے کر دیا ہے البتہ دوسرے بے شمار اونچے اور سرسبز درخت اپنی پوری شان سے پہاڑوں کے اوپر لہلہلارہے ہیں۔