”روڈاس قدر خراب ہے کہ لگتا ہے بیلٹ باندھنے کے باوجود میں جیپ کی کھڑکی سے باہر گر جاؤں گی، اگرچہ میرا ساتھی ڈرائیو کرتے ہوئے چلتی ہوئی جیپ پر مکمل گرفت رکھ کے ٹائروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھے ہوئے ہے، جیپ کے شیشے سے نیچے ڈر ڈر کر دیکھتی ہوں تو 500 فٹ گہری کھائی نظر آتی ہے اور میری نظریں تیز ترین بہاؤ والے دریا پر پڑتی ہیں تو دل کانپ جاتا ہے“سارہ ایک صحافی ہے جو اپنے تاثرات کو ماؤنٹ ایورسٹ پر ریسرچ کرنے کے بعد بڑی تفصیل سے لکھتی ہے کہ ہم فسنگ نیپال کی طرف جارہے ہیں اور نوکیلی چٹانوں پر بہت اونچی چڑھائی پر چڑھ رہے ہیں، یہ سب اکیسنگ ٹریک ہیں جن کے مختلف نام ہیں انہی میں خطرناک ترین اناپومہ ٹریک ہے، یہاں آنے والے ہر ٹریک ر پورٹر اور لوکل گائیڈ کو اپنے ساتھ ضرور رکھتا ہے جن کی کمروں پر ڈبل اور بعض اوقات پرٹل (تین گنا) سے بھی زیادہ سامان لدا ہوتا ہے، نیپال میں ماؤنٹ ایورسٹ کے آس پاس بے شمار ٹریکس ہیں سیاح یہاں کے لوکل لوگوں کے بنائے ہوئے چائے کے کھابوں میں گرم چائے پیتے ہیں، یہاں سوتے ہیں یہاں ان کو سینکڑوں فٹ اونچائیوں پر گرم کھانا اور صاف پانی ملتا ہے اس لئے خیمے چولہے اور بھاری کھانا اٹھا کر لانے کی ان کو ضرورت نہیں پڑتی، جب کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی پہاڑ اور چوٹیاں ہیں اور سیاح ان کو سر کرنے کے لئے جاتے ہیں یہ سہولیات ناپید ہیں، وہ تو میں اپنے مقامی لوگوں کی جان ومال کو اور ان کی حفاظت کو مقدم سمجھتی ہیں، ٹریکرز کو وہاں اپنے سامان اپنی کمر پر لاد کر چلنا پڑتا ہے چوٹیوں پر چڑھنا پڑتا ہے اور کھانے پینے کی ضروریات خود سے پوری کرنا پڑتی ہیں جب کہ نیپال کی چوٹیوں پر ان کو ہر طرح کی سہولیات بہت معمولی پیسوں میں مل جاتی ہیں، سارہ لکھتی ہے‘میں نے نیپال میں چھ مہینے پورٹرز اور گائیڈ کے انٹرویوز کرتے ہوئے گزار دیئے کیوں کہ میں ان کی آواز اور ان کے کام پر ریسرچ کرنا چاہتی تھی ان کی مشکلات اور زندگی کے تحفظات کو دیکھنا اور لکھنا چاہتی تھی، 80-77 پونڈ وزن اپنی کمروں پر اٹھائے نوکیلی چٹانوں پر پیدل چڑھتے ہوئے میں نے ان کو اپنی
سوچ سے بھی زیادہ بڑے حالات میں دیکھا، جب برفباری شروع ہو گئی تو میں نے اور میرے ساتھی نے ایک چائے کے کھابے میں پناہ لی، ہمارے ساتھ وہ پورٹر بھی تھے، انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا ہم اکیلے ہی ٹریکنگ کریں گے اور یہ کہ ہمارے پورٹر کہاں ہیں میں دل ہی دل میں مسکرا دیتی کیونکہ ہم نے رسے کی مدد سے اکیلے ہی انا پرنا کی چڑھائی پر چڑھنا تھا، میں کمر توڑنے والے بیگز اور سامان لادنے کے بغیر تھی، اگلے دن جب ہم اپنا سامان پیک کر رہے تھے کہ یہاں سے نکل کر آگے چلیں تو میں نے ایک پورٹر کو دیکھا جو 165 پونڈ تک کا سامان کمر پر لاد کر چٹانوں کے اوپر بمشکل روانہ تھا، میں نے اس کو روکا اور پوچھا ایک ہفتے سے زیادہ دن ہوئے ہیں اور تم یہ سامان کمر پر لاد کر اوپر ہی اوپر چڑھتے جارہے ہو تو کیا محسوس کر رہے ہو، اس سے پہلے کہ وہ مجھے جواب دیتا پولینڈ سے تعلق رکھنے والی اس کی مالکن جو ابھی ناشتہ کر کے فارغ ہوئی تھی میرے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے سارا سامان پیک کر دیا ہے‘خود اس عورت نے صرف 10/9 پونڈ کی چیزیں کمر پر باندھی ہوئی تھیں وہ پالش عورت میری طرف مڑی اور کہنے لگی پھر کیا کریں یہ سب تو کرنا پڑتا ہے، ایڈونچر ٹورازم انڈسٹری نیپال میں ڈالر کمانے کی مشین ہے، نیپال میں ٹریکنگ اور اکسینگ اور چڑھائیوں پر چڑھنے کا بزنس عروج پر ہے اور مجبور مقامی لوگوں کا منوں تک سامان اٹھا کر چڑھائیوں پر چڑھنے کے عمل نے اس مہم جوئی کو بڑی تقویت دی ہے اور آج بھی نیپال بڑی خوشی سے ان غیر ملکی سیاحوں کو مین پاور مہیا کرتا ہے جن کو آپ مزدور کہہ سکتے ہیں ان مزدوروں نے اس مہم جوئی کو
ماؤنٹ ایورسٹ جیسے بلند و بالا پہاڑ اور اس کے اردگرد کی چوٹیوں کو فتح کرنے کی جستجو کو بہت تقویت دی ہے، کوئی سیاح کسی دوسرے ملک کے پہاڑوں کو سر کرتے ہوئے یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دو ہزار فٹ بلندی پر اس کو کوکا کولا کی ٹھنڈی بوتل میسر ہو سکتی ہے، نیپال میں آپ ہر آسائش بہت معمولی ڈالرز کے عوض خرید سکتے ہیں، افغانی مزدوروں کی جان اور تحفظ کے اوپر یہ کاروبار عروج پر ہے، آج نیپال میں ٹریکنگ تجارت بن چکا ہے اور کمرشل بنیادوں پر چوٹیوں پر چڑھنے والے کثرت سے ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں، ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچی اور بلند و بالا چوٹیاں اپنے اندر مہم جوئی، مظلومیت، موت اور جبر کی کئی کہانیاں چھپائے سر اٹھا کر کھڑی ہیں، قدرت کی ان عظیم نشانیوں کو میڈیا ایجنسیاں اور لکھنے والے دھڑا دھڑ فروخت کر رہے ہیں، سینکڑوں لوگ ماؤنٹ ایورسٹ جیسے ناقابل تسخیر پہاڑ تک اس لئے پہنچ جاتے ہیں کہ ان کو ان کی سوچ سے زیادہ سہولتیں معمولی ڈالروں کے عوض مل جاتی ہیں، وہ تن آسان غیر ملکی جو ان چوٹیوں پر ایک دن بھی چڑھنے کی سختی برداشت نہ کر سکیں وہ تین تین وقت کا کھانا وہ بھی گرما گرم یہاں کھاتے ہیں وہ ان خیموں میں گہری اور میٹھی نیند سوتے ہیں جو خیمے ان کیلئے کوئی اور گاڑتا ہے تیار کرتا ہے ان رسوں کو پکڑ کر چوٹیوں پر چڑھتے ہیں جو ان کے کوئی اور اپنی جان کو داؤ پر لگا کر پہاڑوں میں گاڑتا ہے اور 90 فی صد تک موت کے منہ میں چلا جاتا ہے ان کے پاس ناکافی سہولیات اور ناکافی لباس ہوتا ہے وہ سیاح ایک فاتحانہ انداز میں گپیں مارتے ہوئے کھاتے پیتے ہیں، لطف اندوز ہوتے ہوئے مہم جوئی سے بظاہر نبرد آزما ہوتے ہیں، یہاں ہر طرف غریب مزدور گائیڈ اور پورٹر اپنی کمر پر 165 پونڈ اس سے بھی زیادہ سامان لادے ہوئے سیاحتوں کو خوش کرنے، ان کو وقت پر روٹی پانی مہیا کرنے کے لئے، ان کی صحت کا خیال کرنے کیلئے بمشکل چوٹیوں کو سر کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ سلسلہ رکتا نہیں ہے، سردی گرمی، برفباری، بارش طوفان ہر موسم میں بے رحمی سے چلتا رہتا ہے۔(جاری ہے)