کرکٹ پاکستان دیے گئے خصوصی انٹرویو میں اقبال قاسم نے کہا کہ اچھی کارکردگی دکھانے والے کھلاڑی کو ہم سر پر اٹھا لیتے اور کپتان بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، پھر اسی کی مرضی سے ٹیم بنتی ہے اور وہ اسے اپنا حق بھی سمجھتا ہے، شکستوں پر اس کی توجہ ذاتی کارکردگی سے کم ہو جاتی ہے تو دودھ میں سے مکھی کی طرح نکال کر پھینک دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ساڑھے 3 سال سے فتح پاکستان ٹیم سے فتح روٹھی ہوئی تھی، انگلینڈ کے خلاف دوسرا ٹیسٹ جیت کر کھلاڑیوں اور کپتان کا مورال بلند ہوا، عاقب جاوید کے بطور سلیکٹر بہترین حکمت عملی اپنانے سے پاکستان کو فائدہ ہوا، ماضی میں ہمیشہ ہوم سیریز میں کم از کم کسی ایک میچ میں اسپنرز کیلئے معاون پچز بنائی جاتی رہی ہیں، البتہ گزشتہ 2 برس سے ایسا نہیں ہوا، اب اسپنرز کو ٹاسک ملا تو انھوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
اقبال قاسم کا کہنا تھا کہ میرا ذاتی خیال ہے کہ بابراعظم کو ڈراپ نہیں کرنا چاہتے تھا البتہ بطور کھلاڑی انکی ٹیم میں جگہ بنتی تھی، ہاں انہیں کپتانی سے ہٹا دینا درست تھا، شاہین، نسیم شاہ کے حوالے سے اقبال قاسم نے کہا کہ دونوں فاسٹ بولرز تھکاوٹ کا شکار لگ رہے ہیں انکی رفتار میں خاطر خواہ کمی آئی ہے وکٹیں لینے میں دشواری انہیں آرام کروانا ٹھیک فیصلہ تھا۔
انکا کہنا تھا کہ دورہ آسٹریلیا، انگلینڈ کے دوران پاکستان سینئیر کرکٹرز کی ضرورت ہوگی انہیں کانفیڈینس دینا چاہیے، میرے خیال میں موقع دیتے کہ وہ اپنے فارم بحال کریں لیکن اگر وہاں جاکر پرفارم نہ کیا تو پھر یہی لوگ کہیں گے کہ صحیح ٹیم سے باہر کیا تھا۔
سابق کرکٹر کا کہنا تھا کہ پنڈی کی پچ سیم اور فاسٹ بولنگ کو مدد دیتی ہے، اسپن ٹریک بنانا اس کی نیچر کیخلاف ہے، ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ پنڈی میں اسپنرز کامیاب رہیں گے یا نہیں البتہ آخری ٹیسٹ میں ان کا کردار اہم ہوگیا ہے۔
پاکستان میں ماضی میں فٹنس کے بجائے بولنگ اور بیٹنگ کی کارکردگی پر زور دیا جاتا تھا،اگر کوئی کھلاڑی فٹ اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو اس کی بڑھتی عمراہمیت نہیں رکھتی۔