روم کی گلیوں میں 

لو گ پو چھتے ہیں رو م کی گلیوں میں کیا کچھ ہے؟ ہم کہتے ہیں رو م کی گلیوں میں کیا کچھ نہیں ہے ان گلیوں کی بڑی عجیب بات یہ ہے کہ ان میں زند گی اعتدال کے ساتھ رواں دواں ہے، نہ گاڑیوں کے ہا رن کا شور ہے نہ سودا بیچنے والوں کی آواز یں ہیں وہ جو غا لب نے اپنے خط میں ”کوئی آئیو، کوئی جائیو“ کے شور و غل سے جا ن چھوٹنے کا ذکر کیا تھا ان گلیوں میں وہی کیفیت ہے‘اس کا یہ مطلب نہیں کہ لند ن کے مر کزی علا قے کی طرح گلیاں بند ہیں‘گلیاں آزاد ہیں، مو ٹروں کو اندر آنے کی اجا زت نہیں، زیر زمین میٹرو سروس ہے، ٹرام کی پٹڑی الگ ہے اور ٹرام بھی سواریاں اٹھا تی ہے، رش والے چورا ہوں پر مست گھوڑوں والے خو ب صو رت تانگے بھی ملتے ہیں‘ ہم نے ایک کو چوان سے پو چھا آدھ گھنٹے کی سواری کا کیا لوگے؟ اُ س نے کہا 200یو رو بنتا ہے‘ہم نے پا کستانی کرنسی میں حساب لگا یا تو حا جی کیمپ سے ڈبگری چوک تک جا نے کا 60ہزار روپیہ جوا ب آگیا، جوا ب درست تھا کیونکہ 6نو مبر 2024ء کے دن یو رو کا یہی ریٹ مقرر تھا۔فاروق نے بتا یا کہ مہنگا نہیں ہے‘مسئلہ آمدنی کا ہے یہ لو گ یورو میں کما تے ہیں‘ ان کو پا کستانی کرنسی کا پتہ ہی نہیں۔ 2002ء سے پہلے افغا نستان کی کرنسی کا یہی حا ل تھا۔ 3لاکھ روپے میں ایک وقت کا کھا نا ملتا تھا، کا بل یا جلا ل آباد کے بازار میں ایک جو ڑا کپڑا 30لا کھ اور جو توں کا جوڑا 35لا کھ میں آتا تھا‘ وہی حا ل ہماری کرنسی کا ہونے والا ہے۔ ہم نے بس پکڑ لی جو نہی بس نے پل عبور کر لیا‘ ہمیں طیبر (Tiber) کا مشہور دریا نظر آیا جو خزاں کی آمد کے ساتھ اپنے باز و سمیٹ کر واپسی کے سفر پر روانہ ہو چکا تھا، یہ وہ دریا ہے جو شہر روم کو دو حصوں میں تقسیم کر تا ہے، یہ دریا رومی سلطنت کی چار ہزار سال پرا نی تاریخ پر گواہ ہے‘ایک وقت تھا جب رومی سلطنت شام اور عراق تک پھیلی ہوئی تھی‘فارس کا کسریٰ صرف قیصر روم کو اپنا حریف سمجھتا تھا‘پھر ہر ”کما لے را زوالے“ کے مصداق وقت نے پلٹا کھا یا‘رومی سلطنت کو زوال آیا‘اطا لیہ کا ملک اور شہر روم کا دارالخلا فہ بھی ہاتھ سے جا نے لگا تو ایما نو یل دوم (Ema nuel-II) کی صورت میں مر د آہن میدان میں آیا اُس نے اطالیہ میں مضبوط حکو مت قائم کی شہر روم کی عظمت رفتہ کو پھر سے زندہ کیا ان کی یاد میں شہر کے وسط میں یا د گار تعمیر کی گئی ہے‘وکٹر ایما نو ئیل دوم نے 1861ء میں اطا لیہ کو متحد کر کے رومی حکومت کا احیاء کیا تھا ان کی یا د میں تعمیر کیا گیا اس کی تعمیر اتی کام 1885ء میں شروع ہوا، 1911ء میں اس کا باقاعدہ افتتاح ہوا تاہم تعمیراتی کا م 1935ء تک جا ری رہا 81میٹر بلند عمارت میں کئی ہا ل ہیں‘ہر ہال میں قدیم نوادرات نما ئش کے لئے رکھی گئی ہیں‘عما رت کی چوتھی منزل پر ایما نوئیل دوم کا دیو ہیکل مجسمہ نصب ہے گھوڑے پر سوار مجسمے کو کمال مہا رت سے 81میٹر کی بلند ی پر نصب کیا گیا ہے اس کے کئی نام ہیں سب سے مشہور نا م پلا زو وینیز یا ہے اس کے قریب ہی اطا لیہ کے مشہور ہیرو اور باد شاہ جو لیس سیزر (Julius Caeser) کی یا د گار ہے ان کا زما نہ 44-100ق م تھا، 55سال کی عمر میں اس کو قتل کیا گیا اس کا قریبی ساتھی بروٹس دشمنوں سے ملا ہوا تھا جب ننگی تلوار لہرا کر مقابلے پر آیا تو سیزر نے کہا ”بروٹس! تم بھی دشمنوں سے ملے ہوئے ہو؟“ شیکسپیر نے اپنے ایک ڈرامے کے ڈائیلا گ میں اس کو اطالوی زبان میں یوں لکھا ہے ”et tu Brute“ انگریزی میں یہ جملہ ”Brutus you Too“ کی صورت میں زبان زد عام ہے میر صادق اور میر جعفر کی طرح نمک حرامی کرنے والے کو سیزر نے پا لک بیٹا بنا کر پا لا تھا یہا ں پر جو لیس سیزر کی ایک اور نشا نی دریا فت ہو ئی ہے ایک تعمیر اتی کام  کے لئے کھدائی کے دوران اس یا د گار کے قریب ایک قدیم معبد کے آثار دریا فت ہوئے ہیں جسے جو لیس سیزر کے نا م سے یا د کیا جا تا ہے یہ معبد 29قبل از مسیح میں رومی باد شاہ آگسٹس نے اپنے پیشرو جو لیس سیزر کے نا م پر تعمیر کروایا تھا معبد کے آثار 200فٹ گہرائی میں نظر آتے ہیں تاہم جو لیس سیزر کا مجسمہ قریبی پا رک میں نصب کیا گیا ہے، میرے دوستوں کا اصرار تھا کہ مسو لینی پر کچھ لکھو‘ میں نے ان سے کہا کہ مسو لینی پر لکھنے کے لئے روم تک جا نے کی کیا ضرورت ہے۔

؟ علا مہ اقبال نے با نگ درا میں مسو لینی پر پوری نظم لکھی تھی۔
ر ومۃ الکبریٰ دگر گوں ہو گیا تیرا ضمیر 
ای کہ می بینم بہ بیدار ریست یا بخواب
علا مہ اقبال نے ایک دوسری نظم میں سلطنت روما کے زوال کا ذکر عہدحا ضر کے مسلما نوں کو غیرت دلا نے کے لئے کیا ہے
 نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
 سنا ہے قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہو شیا ر ہو گا