ماہرین آثار قدیمہ نے امریکی جاسوس مصنوعی سیاروں (سیٹلائٹس) کی مدد سے عراق میں ہوئی اسلامی تاریخ کی مشہور جنگ کے درست مقام کی نشاندہی کرلی ہے۔
رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی اور عراق کی القدسیہ یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ انہیں القادسیہ کی لڑائی کا مقام مل گیا ہے، جو 636 یا 637 عیسوی میں ہوئی تھی۔
اس جنگ میں عرب مسلمانوں کو ایک اہم فتح نصیب ہوئی تھی اور عرب سے باہر ان کا پھیلاؤ ممکن ہوگیا ہتھا، لیکن اس جنگ کا صحیح مقام پہلے معلوم نہیں تھا۔
ڈرہم یونیورسٹی میں آثار قدیمہ کے ریموٹ سینسنگ کے ماہر ولیم ڈیڈمین نے سی این این کو بتایا کہ یہ دریافت ایک وسیع تر منصوبے کا حصہ تھی جس کا مقصد پورے مشرق وسطیٰ میں آثار قدیمہ کے مقامات کی نقشہ کشی کرنا ہے۔
ابتدائی طور پر، ٹیم عراق کے شہر کوفہ سے سعودی عرب کے شہر مکہ تک درب زبیدہ زیارت کے راستے کی 1970 کی دہائی کی خفیہ سیٹلائٹ تصاویر اور تاریخی تحریروں کا استعمال کرتے ہوئے نقشہ سازی کر رہی تھی، اس دوران انہیں معلوم ہوا کہ یہ سیٹلائٹ تصاویر اور تحریریں مشہور جنگ کی جگہ کی شناخت کیلئے استعمال ہو سکتی ہیں۔
ٹیم نے تاریخی اکاؤنٹس میں مذکور فاصلوں کا استعمال کرتے ہوئے نقشے پر حلقوں کی ایک سیریز کو نشان زد کیا، پھر انہوں نے سیٹلائٹ امیجز پر ان علاقوں کو قریب سے دیکھا۔
ڈیڈ مین نے سی این این کو بتایا کہ اکاؤنٹس میں مذکور ایک قلعہ اور ڈبل دیوار کی خصوصیات دیکھ کر وہ ششدر رہ گئے تھے۔
ٹیم کا کہنا ہے کہ یہ لڑائی نجف گورنری میں کوفہ سے تقریباً 30 کلومیٹر (19 میل) جنوب میں ہوئی، ڈیڈ مین کے تجزیے کو عراق میں محققین کی زمینی تحقیقات کی حمایت حاصل ہے۔
القادسیہ کی لڑائی میں ایک چھوٹی عرب مسلم فوج نے ساسانی سلطنت کی ایک بہت بڑی فوج کو شکست دی تھی جس کا اس خطے پر غلبہ تھا۔
ڈیڈ مین نے کہا کہ چند ناکام کوششوں کے بعد، یہ مسلمانوں کی عرب سے باہر پھیلنے کی کوششوں میںپہلی ”واقعی اہم فتح“ تھی۔
ڈیڈ مین نے وضاحت کی کہ یہ علاقہ اب زرعی علاقہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 6 میل (9.7 کلومیٹر) طویل دیوار کا زیادہ تر حصہ تباہ ہو چکا ہے یا اسے زرعی حدود میں شامل کر دیا گیا ہے، اور الذہیب میں قدیم فوجی چوکی کی جگہ پر کی گئی کھدائی دکھائی دیتی ہے۔
اس کے بعد، محققین جو کچھ بچا ہے اس کا نقشہ بنانے اور آثار قدیمہ کے سروے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی وجہ سے علاقے کے دورے کے منصوبے روکے گئے ہیں۔
یونیورسٹی آف ایکسیٹر میں اسلامک اسٹڈیز کے لیکچرر مصطفی بیگ، جو اس تحقیق میں شامل نہیں تھے، انہوں نے اس تلاش کو ”بہت اہم“ قرار دیا۔
بیگ نے سی این این کو بتایا کہ مسلم فوج بہت قلیل تعداد میں ہونے کے باوجود بہادری اور شاندار حکمت عملی کے امتزاج کی بدولت غالب آئی۔
انہوں نے کہا کہ ’فیصلہ کن جنگ نے ساسانی سلطنت کے خاتمے اور میسوپوٹیمیا، فارس اور اس سے آگے مسلمانوں کی سرزمین کے پھیلنے کا راستہ بنایا۔‘