مطالعے میں کہا گیا ہے کہ آگ کی وجہ سے ہونے والی فضائی آلودگی دنیا بھر میں ایک سال میں 15 لاکھ سے زائد اموات کا سبب بنتی ہے، جن میں سے بیشتر ترقی پذیر ممالک میں ہوتی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے حوالے سے کہا گیا کہ دی لانسیٹ جریدے میں کیے گئے ایک مطالعے کے مطابق آنے والے برسوں میں ہلاکتوں کی یہ تعداد بڑھنے کی توقع ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی جنگل میں آگ لگنے کے واقعات بار بار پیش آنے کا باعث بن رہی ہے اور اسے شدید بنا رہی ہے۔
محققین کی بین الاقوامی ٹیم نے ’زمین پر لگنے والی آگ‘ کے بارے میں موجودہ ڈیٹا کو دیکھا، جس میں قدرتی طور پر جنگل میں لگنے والی آگ اور کاشتکاری کی زمین پر منصوبہ بندی کے تحت آگ لگانے جیسے واقعات شامل ہیں۔
محققین نے بتایا کہ 2000 اور 2019 کے درمیان دل کی بیماری سے ہونے والی سالانہ ساڑھے 4 لاکھ اموات آگ سے متعلق فضائی آلودگی سے منسلک تھیں۔
سانس کی بیماری سے مزید 2 لاکھ 20 ہزار اموات کی وجہ آگ سے ہوا میں پھیلنے والے دھوئیں اور ذرات کو قرار دیا گیا۔
مطالعے کے مطابق دنیا بھر میں تمام وجوہات سے کُل 15 لاکھ 30 ہزار سالانہ اموات زمین پر لگنے والی آگ سے پیدا ہونے والی فضائی آلودگی سے وابستہ تھیں۔
مطالعے میں کہا گیا کہ ان میں سے 90 فیصد سے زیادہ اموات کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں ہوئیں، جن میں سے لگ بھگ 40 فیصد صرف سب صحارا افریقہ میں ہوئیں۔
سب سے زیادہ اموات والے ممالک میں چین، عوامی جمہوریہ کانگو، بھارت، انڈونیشیا اور نائیجیریا شامل ہیں۔
شمالی بھارت میں کھیتوں کو غیر قانونی طور پر جلانے کی ریکارڈ مقدار کو جزوی طور پر زہریلی اسموگ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے جس نے حال میں دارالحکومت نئی دہلی کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
لانسیٹ کے مطالعے کے مصنفین نے زمین پر لگنے والی آگ سے ہونے والی ہلاکتوں کی بڑی تعداد سے نمٹنے کے لیے ’فوری کارروائی‘ کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ امیر اور غریب قوموں کے درمیان تفاوت ’موسمیاتی ناانصافی‘ کو مزید نمایاں کرتی ہے، جس میں وہ لوگ جنہوں نے گلوبل وارمنگ میں سب سے کم حصہ ڈالا ہے، اس کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔
محققین نے نشاندہی کی کہ کچھ طریقوں سے لوگ آگ کے دھوئیں سے بچ سکتے ہیں جیسے علاقے سے دور جانا، ایئر پیوریفائرز اور ماسک کا استعمال کرنا، یا گھر کے اندر رہنا، لیکن غریب ممالک میں لوگوں کے لیے یہ طریقے دستیاب نہیں ہیں۔
انہوں نے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں لوگوں کے لیے مزید مالی اور تکنیکی مدد کا مطالبہ کیا۔
واضح رہے کہ یہ مطالعہ اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کے ایک ہفتے بعد جاری کیا گیا ہے، ان مذاکرات میں مندوبین نے موسمیاتی فنڈنگ میں اضافے پر اتفاق کیا جسے ترقی پذیر ممالک نے ناکافی قرار دیا تھا۔