کِلر وہیلز کے عجیب رویے نے سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھما کر رکھ دیا

اورکا یا کِلر وہیل وہ سمندری جاندار ہے جو کافی عرصے سے سائنسدانوں کے ذہنوں کو الجھا رہا ہے۔

پہلے سائنسدان یہ جان کر دنگ رہ گئے تھے کہ کِلر وہیل کی جانب سے گریٹ وائٹ شارک کا شکار کیا جاتا ہے اور اکثر اسے کھانے کے لیے نہیں مارا جاتا بلکہ بس جگر کھانے کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔

سائنسدان اب تک اس کی وجہ نہیں جان سکے کہ اچانک کِلر وہیل نے گریٹ وائٹ شارک کا شکار کیوں شروع کردیا۔

اب اس سمندری جاندار نے ایک بار پھر سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھما دیا ہے۔

شمالی امریکا کے مغربی ساحلی علاقوں میں کِلر وہیل کے ایک گروپ میں عجیب بات کو نوٹس کیا گیا۔

ان کِلر وہیلز میں سے بیشتر نے اپنے سروں پر ایک مردہ سالمن مچھلی کو ایسے رکھا ہوا ہوتا ہے جیسے انہوں نے کوئی ٹوپی پہنی ہوئی ہو۔

اس طرح کا عجیب رجحان 1980 کی دہائی کے آخر میں بھی نظر آیا تھا مگر اب لگ بھگ 40 سال بعد کِلر وہیلز ایسا کیوں کر رہی ہیں، سائنسدان اس سوال کا جواب نہیں جان سکے۔

اس طرح کا پہلا مشاہدہ 1987 میں ہوا تھا جب شمال مشرقی بحر الکاہل میں ایک مادہ کِلر وہیل کو مردہ مچھلی ناک پر رکھ کر لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

اس کے چند ہفتوں بعد یہ رویہ کِلر وہیلز کے دیگر گروپس کے اراکین نے اپنا لیا۔

کِلر وہیلز کے عجیب رویے نے سائنسدانوں کے ذہنوں کو گھما کر رکھ دیا
کِلر وہیلز اس طرح مردہ مچھلی کو سر پر ٹوپی کی طرح پہن رہی ہیں / فوٹو بشکریہ Jim Pasola

مگر 1988 میں کِلر وہیلز نے اچانک ہی ایسا کرنا چھوڑ دیا مگر اب پھر ان میں مردہ مچھلیوں کو سر پر ٹوپی کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔

یہ واضح نہیں کہ اس طرح کِلر وہیلز کی جانب سے کسی قسم کے فیشن کا اظہار کیا جا رہا ہے یا وہ خوراک کو بعد میں کھانے کے لیے ذخیرہ کرنے میں مصروف ہیں۔

کِلر وہیلز کی جانب سے اکثر اضافی خوراک کو fins میں محفوظ کیا جاتا ہے تو ہوسکتا ہے کہ سر پر مچھلی کو بھی اسی لیے رکھا جا رہا ہو۔

ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ اس طرح کی ٹوپیوں کی کِلر وہیلز کے گروپس کے اندر کوئی اہمیت ہوتی ہو یا یہ بس ان سمندری جانداروں کا کوئی کھیل ہو۔

ماہرین کے مطابق حقیقت تو یہ ہے کہ اس بارے میں کچھ بھی کہنا مشکل ہے اور کِلر وہیلز کے اس رویے نے ہمارے ذہنوں کو بھی الجھا دیا ہے کیونکہ اس کی وضاحت سمجھ نہیں آرہی۔

ان کی جانب سے ڈرونز کے ذریعے اس رویے کو مانیٹر کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے تاکہ اس کا مقصد سمجھنے کی کوشش کی جاسکے۔

سائنسدانوں کے مطابق مزید مشاہدے سے اس عجیب رویے کی تفصیلات سامنے آسکتی ہیں۔