سات سینئر وکلا نے ایک خط میں چیف جسٹس آف پاکستان (سی جے پی) یحییٰ آفریدی سے درخواست کی ہے کہ 26ویں ترمیم کو چیلنج کرنے والی ان کی الگ الگ درخواستوں کو فوری طور پر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے اور سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کی طرف سے اس کی سماعت کی جائے۔
چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ قانون سازی کرنے والا ادارہ ہی اس کی جانچ نہیں کر سکتا۔‘
کچھ درخواستیں نئے جوڈیشل کمیشن کے پہلے اجلاس اور ’آئینی بینچز‘ کی تشکیل سے پہلے دائر کی گئی تھیں۔ ان میں عبوری ریلیف کے لیے مخصوص استدعا کے ساتھ ساتھ ان پر فوری سماعت کی استدعا کی گئی تھی۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ’سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کا سیکشن 7 واضح طور پر تقاضا کرتا ہے کہ اگر درخواست میں فوری سماعت یا عبوری ریلیف کی استدعا کی گئی ہو تو اسے دائر ہونے کی تاریخ سے 14 دنوں کے اندر سماعت کے لیے مقرر کیا جائے گا اور اس میں تاخیر ناقابل توجیہہ ہوگی۔‘
سینئر وکیل منیر اے ملک، حامد اے خان، عابد شاہد زبیری، صلاح الدین احمد، خواجہ احمد حسین، اختر مینگل اور زینب جنجوعہ کے دستخط شدہ خط میں چیف جسٹس سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالتی دفتر کے ذریعے ان درخواستوں کو جس غیر معمولی طریقے سے نمٹایا گیا اس کی بھی انکوائری کا حکم دیا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تمام درخواستیں فل کورٹ کے سامنے پیش کی جائیں جیسا کہ سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کی اکثریت نے 31 اکتوبر کو پہلے ہی کچھ درخواستوں پر فیصلہ دیا ہے۔
خط میں کہا گیا ہے کہ ایک ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اس معاملے کی آئینی اور عوامی اہمیت کے باوجود یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئیں اور اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ رجسٹری کی جانب سے کسی بھی درخواست کو نمبر تک نہیں دیا گیا۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ نہ ہی درخواستوں پر کوئی دفتری اعتراضات سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے بتائے گئے ہیں۔