افغانستان کے طالبان حکومت کے وزیر برائے مہاجرین اور بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک کے پیچھے کارفرما ذہن خلیل حقانی کو ساتھیوں سمیت انکے محفوظ ترین وزارت میں خودکش حملہ آور نشانہ بنانے سے کئی ایک سوالات کا جنم لینا قدرتی امر ھے ۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے خلیل حقانی افغانستان کے عبوری حکومت کا تیسری سب سے اہم شخصیت بن گئے ہیں جنہیں کابل میں ان کے وزارتی کمپلیکس کے اندر خودکش بمبار نے نشانہ بنایا۔ خلیل حقانی کی ھلاکت اگر ایک طرف انکے خاندان اور دھشت گرد تنظیم حقانی نیٹ ورک کے لئے تباہ کن ثابت ھو رھا ھے تو دوسری طرف طویل روابط اور رفاقت کے تناظر میں یہ ھلاکت پاکستان کے جنگ سے تباہ حال افغانستان میں اثر و رسوخ اور مفادات کے لیے دھچکہ ثابت ھو سکتا ھے ۔ خلیل حقانی کے بعد پاکستان کے افغانستان کے داخلی اور خارجی معاملات میں اثر و رسوخ میں کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
نہ صرف طالبان کی اعلیٰ قیادت نے خلیل الرحمان حقانی کے خلاف خودکش حملہ کرنے کے لیے دولت اسلامیہ (آئی ایس) کہلانے والی داعش پر الزام عائد کیا ہے بلکہ داعش نے اس خود اس واقع کی ذمہ داری قبول کرکے نہ صرف افغانستان بلکہ خطے میں اپنی موجودگی اور دھشت گردانہ سرگرمیوں کے جاری رکھنے کی تصدیق کر دی ھے ۔ تاہم عام آدمی اور تجزیہ کار افغانستان کی سرزمین پر آئی ایس کے عسکریت پسندوں کی پر اسرار عزت و حوصلہ افزائی سے متعلق سوالات کے جوابات کی تلاش میں ہیں۔ یہ اب کوئی راز نہیں ہے کہ سخت گیر انتہا پسند اسلامی تنظیموں کے اراکین اور اس قسم کے خیالات کے حامل افراد جنکی اکثریت القاعدہ، داعش اور دیگر سے ھے کی دھشت گردانہ اور پر تشدد کاروائیوں سے امریکی اتحادیوں کے علاوہ کسی اور کو فائدہ نہیں پہنچا رہے ہیں۔ لیبیا کے رہنما کرنل قذافی کے ایسے نام نہاد اسلام پسند گروپوں کے پیچھے دماغ کی تصدیق کے بعد شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت کے بعد اس نام نہاد مذھبی اسلامی تنظیموں کے عزائم اور مقاصد پر مزید بحث و مباحثہ فضول ھے ۔ فارس (اسلامی جمہوریہ ایران) کی اسٹیبلشمنٹ کا جو بھی موقف ھے مگراس کی سرپرستی میں پرورش پانے والے حماس اور حزب اللہ کے حرکتوں سے مشرق وسطیٰ میں امریکی کٹھ پتلی اسرائیل کو مزید تقویت حاصل ھو رھا ھے۔
خود کش حملے میں خلیل حقانی کے قتل پر امارت اسلامیہ کے اندر قندھاریوں کا ردعمل مثبت یا حوصلہ افزا نہیں ہے۔ یہاں تک کہ امارت اسلامیہ کے ایک بھی اعلیٰ عہدے دار نے خلیل حقانی کے جنازے میں شرکت نہ کرکے پچھلے ساڑھے تین سالوں سے جاری ان افواہوں پر مہر ثبت کردیا جس میں امارت اسلامی کے اندرونی صفوں اختلافات کو اجاگر کیا جا رھا ھے ۔ صرف وزیر خارجہ امیر خان متقی اور جنوب مشرقی زون سے مولوی عبدالکبیر ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے خلیل حقانی کے جنازے یا آخری رسومات میں شرکت کی۔ یہ دونوں رھنما طالبان کے قندھاری گروپ میں شمار نہیں کئے جا رھے ہیں۔
طالبان کی اندرونی صفوں میں دراڑیں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ اختلافات اگست 2021 کے وسط سے جاری ہیں۔ اس وقت طالبان کی اعلیٰ کمان نے حکومت پر قندھاریوں کی اجارہ داری قائم کرنے کا ذہن بنا لیا تھا لیکن خلیل حقانی کے علاوہ کسی اور نے مخالفت نہیں کی تھی۔ اس اجارہ داری کو روکنے کے پاکستان آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نے بھی خلیل حقانی کی مدد کی تھی۔ سراج الدین حقانی جو خاندان اور بدنام زمانہ حقانی نیٹ ورک کی سربراہی کر رہے ہیں کم عمر اور تجربہ کار ہیں چچا خلیل حقانی نےبان کی ہمیشہ صحیح سمت میں رہنمائی کی۔ اب جب خلیل حقانی نہیں رہے تو سراج حقانی کو یقیناً مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
مختلف جہادی، عسکریت پسندوں اور دیگر افراد کے ذریعے، پاکستان نے پورے افغانستان میں ناقابل تسخیر اثر و رسوخ قائم کیا ہے۔ اس سے پہلے، یہ اثر و رسوخ اس وقت تک پورے جوبن سے برقرار رہا جب امریکہ نے قطر کے ذریعے امارت اسلامیہ کے ساتھ براہ راست روابط قائم کئے۔ تاہم، پاکستان جغرافیائی سیاسی مقامات کا فائدہ اٹھا کر کسی حد تک اس نقصان کا ازالہ کرنے میں کامیاب ہوا۔ لیکن اب خلیل حقانی کی اچانک موت سے افغانستان میں پاکستان کے اثرات کے مکمل طور پر ختم ہونے کا امکان ہے جو بڑے بھائی جلال الدین حقانی کے بعد راولپنڈی اسلام آباد کا سب سے زیادہ وفادار اور فرمانبردار سمجھا جاتا تھا مگر موجودہ حالات میں نوجوان سراج الدین حقانی کے لئے یہ فریضہ نبھانا نا ممکن نہیں بلکہ بہت مشکل ھوگا ۔
شام میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کے تناظر میں امریکا نے اسلامی دنیا میں نہ صرف اپنے جیو اسٹریٹجک اقتصادی مفادات کی تحفظ بلکہ محفوظ اور مستحکم اسرائیل بنانے کے لیے اپنے اہم کردار کی بھی تصدیق کی ہے، یوں دکھائی دیتا ھے کہ شام فتح کرنے کے بعد اب امریکا اور اتحادی اس خطے میں مزید فوقیت حاصل کرکے سب سے اھم حریف روس کو اپنی جغرافیائی سرحدوں تک مزید محدود کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ شام کے مذھبی انتہا پسندوں کو بخوبی استعمال کرنے کے بعد اب امریکی جاسوس ایجنسیاں القاعدہ اور آئی ایس کی قیادت والے ایشیائی اسلامی گروپوں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند تنظیموں اور افراد کو بروئے کار لانے کی حکمت عملی کو آخری شکل دے رھے ھیں۔ اور ان مذھبی انتہا پسند تنظیموں سے منسلک افراد اور انکے ھم خیال لوگ افغانستان کے ساتھ ساتھ پاکستان بھر میں موجود ھے اور یہ خصوصی اثاثے امریکی مفادات کے لئے سعودی عرب۔قطر اور متحدہ عرب امارات کے ایک اشارے کے منتظر ہیں۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حقانی افغانستان کی سرزمین پر طویل جاری جنگ کے گواہ ہیں اور اس جنگ کی تمام ڈوریں کوئی اور نہیں بلکہ امریکی جاسوسی ادارے ہلا رھے ہیں ۔ اپریل 1988 میں جنیوا معاھدے کے بعد امریکی ادارے وقت کے ساتھ ساتھ اس جنگ کے اھم کرداروں اور چشم دید گواہوں کو ختم کر رھے ہیں۔ اس جنگ کے عینی شاہدین میں سے سب سے اھم کرداروں اور گواہوں کو ختم کر دیا گیا ہے۔ خلیل حقانی کے خودکش حملے میں ھلاکت کو بھی اس تسلسل کا حصہ سمجھا جاتا ہے ۔ اہم کرداروں اور گواہوں کے منظر عام سے ہٹانے کے باوجود افغانستان کے سر زمین پر جاری جنگ کے خاتمے کے دور دور تک اثار دکھائی نہیں دیتے ۔ اس سے سابق صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کے اس موقف کی تائید ھوتا ھے جس میں انہوں نے 1988 میں جنیوا معاہدے پر دستخط کرنے سے پہلے اس جنگ ایک گریٹ گیم قرار دیا تھا۔ اس گریٹ گیم میں کردار ادا کرنے والے یا تو اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا اب ملک کے اندر عزت اور سکون کے ساتھ رہنے کے قابل نہیں ہیں اور کچھ اس قسم کی صورتحال کا سامنا اب اس حقانی خاندان کو کرنا ھوگا جو کسی وقت پاکستان کے طول و عرض میں شاہانہ زندگی گزار رھے تھے ۔