باچا خان نشانے پر

پشتو کا مشہور اور معروف ضرب المثل ھے کہ " چیندخ پہ لوٹہ اودرید کشمیر ئ اولید " ۔ ایک اور ھے جسکے الفاظ کچھ بہت زیادہ غیر مناسب یعنی وہ مسجد میں گندگی پھیلانے والا ۔ بہر حال محترم دوست ساجد ٹکر جو دن رات پشتونوں کی اتحاد و اتفاق کی جہد میں ہمہ تن سرگرم عمل ھوتا ھے نے ایک تازہ ترین وی لاگ میں پشتون تحفظ تحریک کے کارکنوں کی جانب سے عوامی نیشنل پارٹی بالخصوص اس کے موجودہ سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان کے خلاف جاری الزام تراشی کو موضوع بحث بنایا ھے ۔ ساجد ٹکر نے کسی کا نام لئے بغیر کہا کہ دیگر سیاسی و مذھبی جماعتوں کے کارکنوں سے زیادہ اس وقت ایمل ولی خان کے کردار کشی میں پشتون تحفظ تحریک کے کارکن مصروف عمل ھے ۔ اور ایمل ولی خان کے کردار کشی کا یہ عمل ایک ایسے وقت ھو رھا ھے جب پختونخوا کے طول و عرض میں پشتون اپنی بقاء کے بارے میں پریشان حال ھے جبکہ افغانستان سے اس وقت مکمل طور پر پختونوں کو نکالا جا رھا ھے ۔ بہرحال ساجد ٹکر کی تشویش اپنی جگہ مگر یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ھے کہ احمد شاہ ابدالی سے لیکر باچاخان اور باچا خان سے لیکر شہید ڈاکٹر نجیب اللہ تک کہ قوم پرست ۔ اصلاح پسند ۔ روشن خیال ۔ جمہوریت پسند اور ترقی پسند پشتون رھنماووں کی راہ میں جتنے روڑے سامراج عناصر نے نام نہاد مذھبی رھنماووں جماعتوں اور ملاووں کے ذریعے اٹکائے ھیں۔ اس سے کہیں زیادہ ان سامراجی قوتوں نے نام نہاد ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کو استعمال کرکے پشتونوں کو متحد کرنے کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے دیا ھے ۔ اگر دیکھا جائے تو باچاخان کے پشتون قوم پرست اصلاحی تحریک کے خلاف سامراجی قوتوں نے سب سے پہلے کسی اور کو نہیں پشتونوں کے صفوں میں موجود بعض مذھبی اور مترقی ذھنیت کے حامل افراد کو استعمال کیا تھا۔ باچا خان کے زندگی میں ان عناصر نے سب سے پہلے برطانوی حکمرانوں کا ساتھ دیا تھا اور بعد میں یہ عناصر قیوم خام اور ایوب خان جیسے پشتون دشمنوں کے آلہ کار بنے تھے ۔ ساجد ٹکر نے صوابی سے تعلق رکھنے والے ایک گٹھیا ذھن والے شخص کا نام لیا جس نے احسان فراموشی کے تمام عالمی ریکارڈ توڑ کر پاکستان کے جاسوسی اداروں کے مالی تعاون سے باچاخان اور ولی خان کے خلاف کچھ اوراق کالے کئے تھے ۔ صوابی کے اس شخص کو یہ سب کچھ اس وقت کرنا پڑا جب سابق وزیر اعلی امیر حیدر خان ھوتی کی حکومت نے اس کی انجینئرنگ کالج میں نوکری کی تمام تر واجبات ترقی وغیرہ سمیت بحال کرنے سے معذوری ظاھر کی۔ متعلقہ شخص کی سابق وزیر اعلی کے نام درخواست بمع مرحوم اجمل خٹک کے سفارشی خط کے ساتھ ابھی تک محفوظ ھے ۔ کسی کو بھی پشتون تحفظ تحریک کے بانی رھنماووں منظور پشتین اور علی وزیر کے نیت پر شک نہیں مگر ساجد ٹکر صاحب کو یہ بھی یاد ھونا چاھئے کہ ان دونوں کے علاوہ اس تنظیم کے کرتا دھرتاووں میں کوئی اور نہیں بلکہ وہ لوگ شامل ھے جن کے سینیئرز کو کسی وقت میں مرحوم غوث بخش بزنجو صاحب نے ھیرے قرار دے کر 1985 میں عوامی نیشنل پارٹی کے قیام کے وقت مرحوم خان عبدالولی خان کے جھولی میں ڈالے تھے ۔ مرحوم ولی خان نے ان ھیروں کو مخاطب کرتے ھوئے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ نہ تو آپ لوگوں کو کوئی قبول کرتا ھے اور نہ آپ کسی کے ساتھ زیادہ دیر کے لئے چل سکتے ۔ صرف باچاخان کی وارث پشتون قوم پرست سیاسی جماعت آپکے لئے محفوظ ٹھکانہ ھے ۔مگر یہ پھر بھی باز نہ آئے اور ان میں سے ایک محترم نے خوساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد 1989 میں کابل افغانستان سے واپسی کے بعد ایک ایسی ترقی پسند سیاسی جماعت تشکیل دی جو تین سالوں کے اندر اندر مرحوم خان لالا کے ساتھ ملکر عوامی نیشنل پارٹی کے خلاف ایک اور پشتون قوم پرست سیاسی جماعت بن گئی مگر یہ قوم پرست بھی تین چار سال کے عرصے میں تین گروہوں میں تقسیم ھوگیا تھا ۔ بعد میں ان خیالات کے حامل افراد فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے آنکھوں کے چمک سے متاثر ھوگئے ۔ مگر 2002 کے انتخابات کے بعد انکی آنکھیں کھل گئی دوبارہ واپس باچاخان کہ قوم پرست اور اصلاح پسند سیاسی تحریک عوامی نیشنل پارٹی کے صفوں میں جا گھسے ۔ مرحوم ولی خان اور انکے فرزند ارجمند نے واپس آنے والوں کو نہ صرف گلے ملایا بلکہ انکی بہت زیادہ خاطر مدارت بھی کی گئی مگر 2013 کے انتخابات کے بعد جب پارٹی پر بڑا وقت آیا تو رفتہ رفتہ بزنجو صاحب کے ھیرے بھی پرواز کے بعد پرواز کرتے رھے ۔ راقم ذاتی طور پر پشتون تحفظ تحریک کو جنوری 2018 سے پاکستان تحریک انصاف اور گوڈ عسکریت پسندوں پر مشتمل کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان سے مختلف نہیں سمجھتا ۔ اگر دیکھا جائے تو ان تینوں تنظیموں کا وجود کہیں اور نہیں صرف اور صرف پشتونوں تک محدود ھے ۔ ان تینوں تنظیموں کی پرورش۔ نشوونما اور سرپرستی ایک جیسے پراسرار اور نادیدہ مگر ایک موثر ادارہ یا ادارے مختلف طریقوں سے کر رھے ہیں۔ ان تینوں کو موقر اور موثر بنانے کے عمل سے جتنا زیادہ نقصان پشتونوں کو ھو رھا ھے کسی اور کو نہیں۔ اسی طرح ان تینوں کی پراسرار سرپرستی سے پاکستان کے قانون ساز اداروں بالخصوص قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں سے حقیقی معنوں میں بولنے والوں کو دور رکھا جا رھا ھے ۔ اس وقت قومی اور خیبر پختونخوا میں پچانوے فیصد پشتونوں کی جو نمائندہ جماعت ھے وہ پاکستان تحریک انصاف ھی ھے جس کی ترجیح نمبر ایک عمران خان کی وکالت کے سواء اور کچھ بھی نہیں۔ ساجد ٹکر صاحب پشتونوں کے حقوق و مفادات کے لیے آواز اٹھا ایک دو دن کا نہیں بلکہ جہد مسلسل ھے اور ایک دن اس جہد مسلسل کے بہتر نتائج ضرور بر آمد ھونگے ۔ پشتون نوجوانوں کو چاھئے کہ خالی خولی نعروں پر یقین کرنے اور مغالطہ پاکستان کے بجائے اپنی اصلی اور حقیقی تاریخ پر نظر دوڑائیں۔ محمود غزنوی سے لیکر مغل اور مغل سے پرویز مشرف تک جارح حکمران نے پشتونوں کے وسائل پر ڈاکے ڈال کر اسے برطانوی۔ سکھوں۔ مغلوں اور پنجابیوں کے خدمت میں پیش کئے ہیں۔