جہاد و طالبان : پشتونوں کی نسل کشی
افغانستان میں سابق سوویت یونین کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں شروع کی جانے والی جنگ کی آڑ میں در اصل پشتون قوم کے خلاف شروع کی جانے والی عالمی سطح پر قائم اتحاد ابھی تک قائم و دائم ھے اور اس اتحاد کے ذریعے طالبانائزیشن کے نعرے پر اب پشتونوں کی باقاعدہ نسل کشی کی جا رھی ھے جو از خود اس نسل کشی سے جان بچانا چاہتا ھے تو وہ یورپ امریکہ یا کسی اور مغربی ملک پناہ کے نام پر چلا جاتا ھے اور یا اپنے آپ کو طالبان کی صفوں میں شامل کر دیتا ھے اور جو کسی بھی قیمت پر اس سازش کا حصہ نہیں بننا چاہتا وہ یا طالب یا کافر کے بہتان لگنے کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ھے ۔ افغانستان میں اپنے با اعتماد اتحادیوں بالخصوص برطانیہ ۔ سعودی عرب اور پاکستان کے تعاون سے سوویت یونین کے خلاف جہاد کے کامیاب تجربے کے بعد ایشیا میں اپنے آپ کو مزید قوی یا مظبوط بنانے کے لئے امریکی جاسوسی اداروں نے طالبان کے نام پر 90 کے دہائی کے وسط میں ایک اور دکان سجا دیا جس نے ابھی ایک عالمی تجارتی ادارے کا روپ دھارا ھوا ھے ۔ لاکھ صفائیاں اور تحفظات دینے کے باوجود پاکستان اب بھی جہاد کے بعد طالبان کے ناں پر جاری خون ریزی کے اس کاروبار میں کلیدی کردار ادا کر رھا ھے ۔ ایک روز قبل تیرہ جنوری 2025 ( 13۔01۔2025 ) کو پاکستان کے قومی اسمبلی کے اجلاس میں سرحد پار ( یعنی افغانستان ) سے دہشت گردی سے متعلق اقدامات کے بارے میں رکن قومی اسمبلی محمد جاوید حنیف کے سوال کے جواب وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک عجیب و غریب تحریری جواب پیش کیا ۔ وزیر دفاع کا کہنا ھے،" پاکستان افغانستان سے ابھرنے والی فعال دہشت گردی کا دفاع کرتا آ رہا ہے ۔ اس وقت ہمارا ملک وہ واحد ملک ہے جو افغانستان سے فعال رہنے والی دہشت گرد تنظیموں داعش کا مقابلہ کر رہا ہے، کوئی اور ملک افغان تنازع کی وجہ سے اتنا متاثر نہیں ہوا جتنا پاکستان متاثر ہوا ،پاکستان کو نوے ہزار سے زائد افراد کا جانی نقصان ہوا ھے ۔۔152 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان جبکہ 450 ارب کا بالواسطہ مالیاتی اثر ہوا ھے ۔ عبوری افغان حکومت اسلامک اسٹیٹ اور ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خلاف محتاط اقدامات کررہا ہے ۔ عبوری افغان حکومت کچھ تنظیموں کو آزادی سے کاروائیاں کرنے کی اجازت دے رہی ہے ، عبوری افغان حکومت بعض صورتوں میں ان تنظیموں کی پشت پناہی میں مصروف ہے ۔افغانستان کی صورتحال نے دہشت گردوں کیلیے سرحدوں سے ماوراء ہوکر حملہ اور ہونے کیلئے مواقعوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا ہے ۔ دہشت گردوں کیلیے امریکہ سے رہ جانے والے فوجی ساز و سامان تک رسائی میں بھی اضافہ ہوا ہے ۔" وزیر دفاع ایک طرف یہ کہہ کر کہ " عبوری افغان حکومت اسلامک سٹیٹ ( داعش ) اور ایسٹ ترکستان اسلامک مومنٹ( یعنی چائنیز یا اویغور عسکریت پسندوں ) جیسی دھشت گرد تنظیموں کے خلاف محتاط اقدامات کر رھا ھے افغانستان میں برسر اقتدار طالبان کی تعریف کر رھا ھے جبکہ دوسری طرف یہ کہہ کر " عبوری افغان حکومت کچھ تنظیموں کو آزادی سے کاروائیاں کرنے کی اجازت دے رھی ھے ۔ عبوری افغان حکومت بعض صورتوں میں ان تنظیموں کی پشت پناہی میں مصروف ہیں " کی مذمت بھی کر رھا ھے ۔ وزیر دفاع کا دھشت گردی سے متعلق یہ بیان ایسے روز ایوان زیریں میں پیش کیا گیا جس روز پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر پشاور آکر چند سیاسی و مذھبی سیاسی جماعتوں کے ساتھ خیبرپختونخوا کے طول و عرض میں دھشت گردی کے بڑھکتے ھوئے واقعات پر تبادلہ خیال کرنے آئے تھے ۔ اس اھم نشت کی روداد ابھی تک واضح نہیں ھوسکی ھے مگر جنرل عاصم منیر کی پشتون سیاسی و مذھبی جماعتوں کے رھنماووں کے ساتھ بات چیت کی نوعیت پشاور میں لگ بھگ 20 دسمبر 2014 کو ھونے ولی دھشت گردی کے خاتمے کے لئے مرتب کی جانے والی قومی لائحہ عمل سے مختلف نہیں ھے جس کا انعقاد اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور اس وقت پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے مشترکہ طور پر کیا تھا ۔ خواجہ محمد آصف کے دھشت گردی بالخصوص افغانستان میں برسر اقتدار طالبان لے بارے میں جوابات کچھ عجیب قسم کے ھے بہرحال ان جوابات سے واضح ھوگیا کہ افغانستان کے طالبان اب بھی پاکستان کے آنکھوں کے تارے ہیں۔ آصف ڈار تو دھشت گردی سے نوے ہزار کی پاکستان میں نوے ہزار کی قیمتیں جانوں اور 702 ارب امریکی ڈالروں کے املاک کی تباہی کا ذکر کرتے ہیں مگر وہ اس امریکی اتحاد کے سازش کے نتیجے میں 29 دسمبر 1979 سے لیکر 15 اگست 2021 تک افغانستان کی سرزمین پر ناحق قتل کئے جانے والوں کو بھول رھے ہیں۔ اسی طرح خواجہ آصف صاحب 702 ارب ڈالروں کے املاک کے نقصانات تو اجاگر کر رھے ہیں مگر انہیں ان اربوں نہیں بلکہ کھربوں امریکی ڈالروں کو حاصل کرنے والے پاکستانی خوش قسمتوں کو یاد کرنا چاھئے ۔ ان خوش نصیبوں کو امریکی ڈالرز تنخواہوں کی مد میں نہیں بلکہ افغانستان کے خونریزی میں دلالوں اور اجرتی قاتلوں کے کردار ادا کرنے کے عوض ملے ھے اور مل رھے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں جاری دھشت گردی اگر ایک طرف پشتونوں کی نسل کشی ھے تو دوسری طرف جنوب اور وسطی ایشیائی ممالک کے مستقبل کے لئے بہت بڑا خطرہ ثابت ہو رھا ھے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں دھشت گردی سے نمٹنے کیلئے کوئی ٹھوس حکمت عملی دکھائی نہیں دیتی ۔ مقتدر ادارے اور پنجاب کے محصوص ذھنیت کے حامل سیاسی و مذھبی طبقات کی کوشش ھے کی دھشت گردی اور انتہا پسندی کی یہ آگ خیبر پختونخوا۔ بلوچستان اور افغانستان میں بڑھکتی رھے ۔ اس ذھنیت کے حامل طبقات نے دھشت گردی تشدد اور انتہا پسندی کے اس رحجان پر کبوتر والا انداز اپنایا ھوا ھے جو در حقیقت پشتونوں کی نسل کشی کر مترادف سمجھا جاتا ھے ۔ ماضی کے نسبت اب حالات مکمل طور پر مختلف آگ ایک طرف پاکستان اندرونی خلفشار کے باعث مشکلات اور خطرات سے دوچار ھے تو دوسری طرف عالمی سطح پر بھی پاکستان کی اھمیت گھٹتا جا رھا ھے ۔ ان حالات میں مقتدر اداروں کو توسیع پسندی کے حکمت عملی پر نظرثانی کرنا چاھئے اور اس نئے حکمت عملی کو جیو اور جینے دو کے اصولوں پر مرتب کرنا ھوگا ۔ مشرق وسطی میں آئے روز کے تبدیلیوں اور وسطی ایشیا بالخصوص روس کے خلاف یوکرائن سے لڑی جانے والی جنگ کے تناظر میں مقتدر اداروں کو امریکی برطانوی اور سعودی مفادات کے بجائے اب اپنے مفادات کے بارے میں سوچنا ھوگا ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ھے کہ پاکستان کے مقتدر ادارے ابھی تک گوڈ اور بیڈ طالبان کے گرداب میں پھنسا ھوئے ھیں۔ مقتدر اداروں میں بعض کا خیال ھے کہ گوڈ طالبان انکے وفادار ھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔ شام کے بشار الاسد کی راتوں رات تخت سے بیدخل کرنے ۔ حسینہ واجد کو ڈھاکہ سے نیو دھلی اڑنے اور وفادار اور با اعتماد خلیل حقانی کے قتل لے بعد سب راولپنڈی اسلام آباد کو بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ھے