عمران خان بنام جنرل عاصم منیر

‏ ‏عمران خان بنام جنرل عاصم منیر

فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے!

 شمیم شاھد

سابق وزیر اعظم عمران خان نے فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کے نام خط میں لکھا ہے کہ "فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے" تحریک انصاف سے لگاؤ رکھنے والوں نے بھی اس خط پر تحفظات کا اظہار کچھ اس قسم کے الفاظ میں کیا ھے "عمران خان نے آج ایک بار پھر یوٹرن لیا ہے جسے بعض ناقدین بوٹ پالش قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف ھمیشہ اسٹبلشمنٹ کے بل بوتے پر اقتدار میں آئی۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ "ہمارے فوجی پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوسناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ عمران خان ہی کے مطابق " اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تا کہ عوام اور فوج کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اور فوج کی بدنامی کو کم کیا جا سکے۔"

یوں دکھائی دیتا ھے کہ 1947 سے لیکر 2011 تک فوج یا اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی معاملات سے کوئی سروکار ھی نہیں تھا اور اس دوران جنرل ایوب ۔ جنرل یحییٰ خان۔ جنرل ضیاء۔ جنرل پرویز مشرف سمیت تمام جرنیلوں نے تمام تر توانیاں مملکت عزیز کے جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں پر مرکوز کر رکھی تھی اور یہی وجہ ھے کہ افواج پاکستان کو 1948 کے کشمیر ۔ 1965 کے لاھور ۔1971 کے مشرقی پاکستان۔ 1989 ثمر خیل جلال آباد اور 1990 کے سیاچین کے محاذوں پر تاریخی فتوحات حاصل ھوئی تھی ۔ عمران خان کو معلوم ھونا چاھئے کہ مقتدر اداروں یا ہاتھی نما اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی معاملات میں مداخلت بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی زندگی میں شروع کیا تھا۔ بشمول پاکستان تحریک انصاف۔ پاکستان مسلم لیگ نواز، پاکستان پیپلز پارٹی اور کئی مذہبی و لسانی گروہوں کے تعاون سے اسٹیبلشمنٹ حاوی ہے۔ عمران خان کے فوج پر اعتراضات کی سب سے بڑی وجہ 2024 کے انتخابات میں انکے بقول تاریخی دھاندلی اور عوامی مینڈیٹ کی سر عام چوری ہے جس نے عوام کے غصے کو ابھارا ہے۔ جس انداز میں ایجنسیاں پری پول دھاندلی اور نتائج کنٹرول کرنے کے لیے سیاسی انجینئرنگ میں ملوث رہیں اس نے قوم کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ صرف 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر “اردلی حکومت” ملک پر مسلط کر دی گئی-" کیا 2024 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پہلی دھاندلی تھی ۔ کیا اس سے پہلے ھونے والے انتخابات میں اس قسم کے الزامات نہیں لگوائے گئے ہیں۔ عمران خان پر جشن نچاور کرنے اور پاکستان تحریک انصاف کے قیام کے دن شمولیت کرنے والے شوکت علی یوسفزئ نے کچھ اس قسم کے تحفظات کا اظہار 2024 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا سے پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے کامیابی پر بھی کیا ھے ۔ ایک نجی ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو میں شوکت یوسفزئی کا کہنا ھے کہ تحریک انصاف کے 30/35 ایسے لوگ اسمبلیوں میں موجود ہیں جو "حلف نامے" دیکر ایم این اے اور ایم پی اے بنے ہیں" کیا عمران خان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ 2024 کے انتخابات میں جو جیتے ہیں انہوں نے بھی پیسے دئے ہیں اور جو ہارے ہیں ان سے بھی پیسے لئے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں جمیعت العلماء اسلام ف کے مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر ایمل ولی خان سمیت بہت سے سیاسی رھنماووں کا ایک جیسا موقف ھے ۔ حتی کہ 2024 کے انجینئرڈ نتائج پر دیگر سیاسی رھنماووں کے طرح کسی وقت عمران خان کے پسندیدہ پرویز خٹک اور محمود خان کے علاوہ اب بھی عمران خان کے پرستاروں میں سرفہرست تیمور سلیم جھگڑا۔ کامران بنگش ۔ محمود جان اور دیگر بھی حیران و پریشان ھے ۔ 2018 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے معاملے پر عمران خان ھی حکومت نے سابق وزیر دفاع پرویز خٹک کے سربراہی میں پارلیمانی تحقیقاتی کمیٹی قائم کی تھی ۔ چند روز قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے 2024 کے انتخابات کے ساتھ ساتھ 2018 کے انتخابات کی تحقیقات بھی اسی پرویز خٹک کے کمیٹی سے کرنے کی تجویز دوبارہ پیش کی ھے ۔ خیبرپختونخوا میں تو انتخابات کے نتائج کبھی بھی رائے دہندگان کے ووٹوں سے نہیں بلکہ افغانستان اور خطے کے صورتحال پر کھڑی نظر رکھنے والے اداروں کے مرتب کردہ اعداد وشمار پر کئے جاتے ہیں۔ عمران خان کے بقول فوج یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف عوام کی غم و غصے کی دوسری وجہ چھبیسویں آئینی ترمیم ہے۔ جس طرح چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں اس کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید نفرت پائی جا رہی ہے۔ میرے مقدمات "پاکٹ ججز" کے پاس لگانے کے لیے ناصر جاوید رانا نے فیصلے کو ملتوی کیا۔ عدالتوں میں جاری "کورٹ پیکنگ" کا مقصد یہی ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات من پسند ججز کے پاس لگا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیے جا سکیں۔ اس سب کا مقصد میرے خلاف مقدمات میں من پسند فیصلے، انسانی حقوق کی پامالی اور انتخابی فراڈ کی پردہ پوشی ہے تا کہ عدلیہ میں کوئی شفاف فیصلے دینے والا نہ ہو۔" عمران خان کو یاد ھو یا نہ ھو مگر 2018 سے اپریل 2022 تک کس نے کس کے خلاف ججز کو ھدایات دی تھی ۔ اس وقت نیب کے زیر حراست ایک دانشور کی موت نہ صرف پاکستان کی عدلیہ بلکہ پاکستان کے تاریخ پر ایک لالا دھبہ ھے ۔ اس وقت نہ صرف بڑے بڑے سیاسی رھنماووں بلکہ انکے قریبی رشتہ داروں کو سیاسی عداوت کے بنیاد پر جیلوں میں ڈالا گیا تھا۔ عمران خان کے بقول تیسری وجہ "پیکا" جیسا کالا قانون ہے۔ الیکٹرانک میڈیا پر پہلے ہی قبضہ کیا جا چکا ہے، اب پیکا کی صورت میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے۔ اس سب کی وجہ سے پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس بھی خطرے میں ہے۔ انٹرنیٹ میں خلل کی وجہ سے ہماری آئی ٹی انڈسٹری کو 1.72 بلین ڈالر سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے اور نوجوانوں کا کیرئیر تباہ ہو رہا ہے۔ بد قسمتی یہ ھے کہ عمران خان بہت جلد بھول جاتے ہیں۔ پیکا کے اس بدنام زمانہ ترمیم کو تحریر انہی کے کابینہ میں شامل سابق وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے کیا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے اس اھم خط میں سابق وزیر اعظم عمران خان نے دعوٰی کیا ھے کہ ریاستی اداروں پر عوام کے عدم اعتماد کی چوتھی اہم وجہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت پر ریاستی دہشتگردی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ ہمارے لیڈران اور کارکنان کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے ایک لاکھ سے زائد چھاپے مارے گئے، 20 ہزار سے زائد ورکرز اور سپورٹرز کی گرفتاریاں کی گئیں، انہیں اغوا کیا گیا، لوگوں کے خاندانوں کو ہراساں کیا گیا اور تحریک انصاف کو کچلنے کی غرض سے مسلسل انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے جس نے عوامی جذبات کو مجروح کیا ہے۔" یہ بالکل درست ھے کہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریاں کی جا رھی ھے مگر یہ گرفتاریاں کسی سیاسی بنیادوں پر نہیں بلکہ ریاستی اداروں پر حملوں کی پاداش میں کئے جا رھے ہیں ۔ ماضی میں بہت سے سیاسی جماعتوں اور تنظیموں نے مختلف ادوار میں احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں مگر نو مئی 2023 اور 24 نومبر 2024 والے واقعات کی نظیر پاکستان کیا عالمی تاریخ میں بھی نہیں ملتی ۔ اس وقت دیگر صوبوں کے نسبت راولپنڈی اسلام آباد اور اٹک کے پولیس تھانوں اور جیلوں میں سب سے زیادہ گرفتار افراد کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے ۔ ان لوگوں میں پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے علاوہ ریسکیو 1122 کے اھلکار بھی شامل ہیں ۔ قدرتی آفات اور ھنگامی صورتحال سے نمٹنے کے اس ادارے کے کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں بھی پنجاب پولیس کے تحویل میں ھے ۔ یہ تمام گرفتار افراد اور سرکاری گاڑیاں راولپنڈی اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کسی کارکن یا رھنما کے شادی کے تقریب میں نہیں گئے تھے بلکہ کلہاڑیوں ۔ غلیلوں حتی کی بندوقوں اور پستولوں سے لیس یہ ہزاروں لوگ اسلام آباد فتح کرنے اور حکومت کو زیر کرنے گئے تھے ۔ ان تمام گرفتار افراد نے چونکہ قانون کے خلاف ورزیاں کی ھے انکے مقدمات مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ھے لہذا عمران خان کو ایک مہذب شہری بن کر عدالتوں کے فیصلوں کا انتظار کرنا چاھئے ۔ اسی طرح عمران خان کا کہنا ھے کہ پانچویں بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بدولت معیشت کا برا حال ہے جس نے عوام کو مجبور کر دیا ہے اور وہ پاکستان چھوڑ کر اپنے سرمائے سمیت تیزی سے بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے۔ گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوتی۔ جہاں دہشت گردی کا خوف ہو وہاں کوئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ سرمایہ کاری صرف تب آتی ہے جب ملک میں عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت قائم ہو اس کے علاوہ سب کلیے بے کار ہیں۔ کیا عمران خان کو اب معلوم ھوا کہ ملک معاشی طور پر مشکلات سے دو چار ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت۔ امریکی اتحادیوں کے پراکسی وار میں فرنٹ لائن کا کردار ادا کرنے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ دشمنوں جیسی رویوں کے نتیجے میں پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ھونے کی جہد صرف اور صرف خواب ھے اور خواب کے سواء کچھ بھی نہیں۔ عمران خان لگ بھگ چار سال تک حکومت میں رہا ۔ اس کے بقول یہی اسٹیبلشمنٹ انکے ساتھ ایک ھی پیج پر تھا تو انہیں اس وقت اس معاشی مسائل کے حل پر توجہ دینا چاہیے تھا۔ بہر حال جب تک خارجہ بالخصوص توسیع پسندی اور طالع ازمائ پر مبنی پالیسیوں پر نظرثانی نہیں ھوتی تب تک معاشی ترقی ممکن ھی نہیں۔ چھٹی بڑی وجہ تمام اداروں کا اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی انتقام کی غرض سے تحریک انصاف کو کچلنے کا کام کرنا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے پوری فوج پر نزلہ گر رہا ہے۔ پرسوں اے ٹی سی کے جج نے عدالت میں میری اہلیہ کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا اس کے باوجود کے وہ آنا چاہتی تھیں کسی نادیدہ قوت نے اس کو سبوتاژ کیا۔" عمران خان بالکل صحیح کہتے ہیں کہ ریاستی ادارے ملک کے سیاسی اور انتظامی معاملات میں مداخلت کرتے رھتے ھے۔ انکی دور میں جنرل فیض اور انکے وفاداروں کی مداخلت شرعی تھی اور اب غیر شرعی ۔ جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے خط کے آخری حصے میں عمران خان کہتے ہیں کہ " بحیثیت سابق وزیراعظم میرا کام اس قوم کی بہتری کے لیے ان مسائل کی نشاندہی ہے جس کی وجہ سے فوج مسلسل بدنام ہو رہی ہے۔ میری پالیسی پہلے دن سے ایک ہی ہے یعنی فوج بھی میری اور ملک بھی میرا۔ ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان کی خلیج کم ہو، اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے، اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی معین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا، اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہو گا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔” عمران خان کا یہ خط پاکستان کی تاریخ کا حصہ بن گیا ھے یہ ایک نیک شگون ھے کہ اقتدار سے ھٹنے کے بعد عمران خان کو احساس ھوا کہ ریاستی اداروں کے تمام تر پالیسیاں درست نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک آزادی کے علمبردار باچا خان اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کہ طرح عمران خان اس وقت مملکت عزیز کے مقبول ترین سیاسی رھنما ھے مگر بدقسمتی یہ ھے لہ عمران خان کا رویہ کبھی بھی سیاسی نہیں رہا ھے ۔ وہ کرکٹ کے دنیا میں کیپٹن کے طور پر مقبول ترین افراد کے صفوں میں شامل ھوئے تھے اور کرکٹ کو خیر باد کہنے کے بعد وہ سیاست کے میدان میں اپنے آپ کو حقیقی معنوں میں کیپٹن تصور کرتے رھتے ھے۔ وہ کسی اور کو سیاسی رھنما یا کارکن سمجھنے کے لئے تیار ھی نہیں۔ اب بھی وقت ھے کہ وہ ماضی میں کئے گئے سیاسی غلطیوں کا ازالہ کرے اور دیگر سیاسی جماعتوں اور رھنماووں کی حیثیت کو تسلیم کرے ۔ اگر وہ دیگر سیاسی جماعتوں اور رھنماووں کی حیثیت تسلیم کرے اور انکے ساتھ مل بیٹھ جائے تو اس کے خط اجاگر کئے گئے بہت سے مسائل حل ھوسکتے ھے اور ان مسائل کو حل کرنے میں اور ریاستی اداروں کی اپنی اپنی ذمہ داریوں کے پوری کرنے میں مملکت عزیز کا بہتر مستقبل پوشیدہ ہے۔