نئے انسپکٹر جنرل پولیس کو درپیش مسائل

کہا جاتا ھے کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی کے اختیارات وزیر اعظم شہباز شریف تو کیا صدر مملکت حتی کے پارلیمان اور عدلیہ سے بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اور یہی وجہ ھے کہ وزیر اعلی سردار علی امین خان گنڈاپور نے انکے تجویز کردہ ذوالفقار حمید کو بحیثیت انسپکٹر جنرل پولیس خیبرپختونخوا قبول کیا ۔ یہ الگ بات ھے کہ محسن رضا نقوی نے انسپکٹر جنرل پولیس کے تعیناتی میں سردار علی امین خان گنڈاپور کے ساتھ ہاتھ کر دیا ھے ۔ بہرحال اس اقدام کو اس لحاظ سے اچھا سمجھنا چاھیئے کہ لگ بھگ بارہ سال کے بعد پہلی بار پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مرضی و منشا کے برعکس ایک ایسے پولیس افسر کو انسپکٹر جنرل پولیس خیبر پختونخوا تعینات کیا گیا ھے اب دیکھنا یہ ھے کہ یہ کس طرح خیبرپختونخوا پولیس کی حقیقی ساکھ کو بحال کرنے میں کامیاب ھو سکتے ہیں۔ ذوالفقار حمید کس طرح اس تاثر کو زائل کرنے میں کامیاب ھونگے کہ وہ اپنے محسن کی طرح پر اسرار اور مقتدر اداروں کے اشاروں پر نہیں ناچیں گے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے پسندیدہ پولیس افسران کی تعیناتی کا سلسلہ 2013 ء کے انتخابات کے بعد اس وقت شروع ھوا تھا جب عمران خان نے پاکستان تحریک انصاف کے تبدیلی کے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سب سے پہلے ناصر خان درانی کو انسپکٹر جنرل پولیس تعینات کیا ۔ناصر درانی کے بعد جونیئر صلاح الدین محسود کو بزور شمشیر مسلط کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت تو کئی ایک نے خاموشی اختیار کرکے پرانی تنخواہوں پر کام جاری رکھنے پر اکتفا کیا تھا مگر سلام ھے سید اختر علی شاہ کو جنہوں نے اس فیصلے کو مسترد کرتے ھوئے سرکاری نوکری کو لات مار دی تھی۔ 2018 کے انتخابات کے دوران نگران دور میں طاہر خان اور 2018 کے انتخابات کے بعد ایک بار پھر صلاح الدین محسود کو اس اھم عہدے پر تعینات کر دیا۔ بعد ازاں ڈاکٹر نعیم ،ثناءاللہ عباسی اور معظم جاہ انصاری کو بھی یہ اعزاز حاصل ھوا آخر میں اختر حیات خان گنڈاپور بھی نگران حکومت اور 2024ء کے انتخابات کے بعد اس اھم عہدے پر براجمان رھے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر عمران خان کے پولیس اصلاحات کے بلند بانگ دعووں کے برعکس خیبر پختونخوا پولیس کے ساتھ وہ کھلواڑ کھیلا گیا جو عالمی سطح پر پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے ساتھ ھوا ھوگا ۔ اس دوران پولیس اھلکاروں کو چڑیوں کی طرح چن چن کر قتل کرنے اور بم دھماکوں کے ذریعے واقعات روز مرہ کا معمول بن گئے ۔ سب سے بڑھ کر 31 جنوری 2023 کو پولیس لائنز پشاور میں جو کچھ ھوا وہ واقعہ خیبر پختونخوا پولیس کے تاریخ پر ایک کالا دھبہ ثابت ھو رھا ھے ۔ اس دوران خیبرپختونخوا پولیس میں بدعنوانی، اختیارات کے ناجائز استعمال اور پولیس افسران اور اھلکاروں کے مختلف قسم کے جرائم بالخصوص منشیات کی سمگلنگ و تجارت وغیرہ کے علاوہ سب کچھ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے ڈکٹیشن پر کرنا اب مکمل طور پر خیبر پختونخوا پولیس کے کارہائے منصبی کا حصہ بن چکا ھے ۔ شخصی و ذاتی طور پر اختر حیات خان گنڈاپور اچھے اوصاف کے حامل افراد میں شامل ھوتے ہیں مگر بحیثیت انسپکٹر جنرل پولیس انکی کارکردگی کسی بھی طور پر قابل ستائش نہیں رھی ھے ۔ پہلے پہل تو اس کے دور میں خیبر پختونخوا پولیس پر پراسرار حملے بالخصوص گھات لگا قتل کے وارداتوں میں بے تحاشا اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس دوران پولیس افسران اور اھلکاروں پر بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے الزامات میں بھی اضافہ ھوا ۔ سب سے بڑھ کر پولیس کے اندرونی معاملات میں سیاسی مداخلت اتنی زیادہ ھو گئی کہ پولیس اھلکاروں کے تعیناتی کے علاوہ پولیس اھلکاروں کی تعیناتی تبدیلی حتی کے معمول کی چھٹیوں پر آنے جانے کے معاملات بھی سیاسی سفارش اور اثر و رسوخ کے بل بوتے پر ھوتے رھے ۔ اختر حیات خان گنڈاپور نے پولیس فورس میں بدعنوانی۔ کروڑوں روپوں کی ہیر پھیر اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے درجنوں واقعات اور رپورٹس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گئی۔ سیاسی مداخلت سے تو خیبرپختونخوا پولیس کے 90 فیصد افسران اور اھلکار عاجز اچکے ہیں اور ہر ایک اجلاس و گفت و شنید کے دوران شرکاء بار ہار اختر حیات خان کے گوش گزار کرتے رہے مگر اختر حیات خان گنڈاپور ایک کان سے یہ گزارشات اور شکایات سنتے اور دوسرے سے نکال دیتے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر یہ ایک حقیقت ھے کہ اس وقت خیبر پختونخوا پولیس کا مورال یا جذبہ نہایت نچلی سطح پر اچکا ھے اس مورال کو کس طرح بحال کیا جاتا ھے ۔یہ ذوالفقار حمید کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اسی طرح وزیر داخلہ محسن رضا نقوی کا انتخاب بن کر وہ سردار علی امین خان گنڈاپور انکی کابینہ ، رفقائے کار اور پاکستان تحریک انصاف کے غیر سیاسی ممبران پارلیمان اور پارٹی عہدیداروں کے ساتھ کس طرح وقت گزاریں گے ۔ اسی طرح خیبر پختونخوا پولیس اھلکاروں کے خلاف منظم منصوبہ بندی کے ساتھ جاری دھشت گردی نہیں بلکہ پشتونوں کے طرح پشتون پولیس اھلکاروں کی نسل کشی بھی ذوالفقار حمید صاحب کے لئے چیلنج ھے ۔ ذوالفقار حمید کے بارے میں کہا جاتا ھے کہ وہ ایک نہایت قابل اور دلیر پولیس افسر ھے اب دیکھنا یہ ھے کہ وہ اپنی اس قابلیت سے خیبر پختونخوا پولیس کی تشخص بحال کرنے میں کہاں تک کامیاب ھو سکتا ھے ۔ انہیں کم از کم اہنے پیشروں انسپکٹر جنرلز بالخصوص صلاح الدین محسود اور اختر حیات خان گنڈاپور کی تقلید سے گریز کرنا چاھئے ۔