محترم رحیم اللہ یوسفزئی کے ساتھ راقم کی پہلی ملاقات دسمبر 1984 کے دوران اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں منعقد ہ کانفرنس میں ہوئی تھی، اس وقت نہایت خوش لباس رحیم اللہ یوسف زئی ریجنل سٹڈیزسنٹر میں ریسرچ آفیسر کے طور پر کام کررہے تھے۔جبکہ راقم کو رحیم اللہ یوسف زئی کے میڈیکل نیوز نامی جریدے میں چند دنوں کیلئے رپورٹر کی حیثیت سے کام کرنے کا بھی موقع ملا، بہرحال اس مختصر ملاقات میں رسمی تعارف کے بعد صحافتی زندگی اور پیشے پر بھی مختصر بات چیت ہوئی تھی۔ بعد ازاں اکتوبر 1986میں جب راقم نے فرنٹیئر پوسٹ میں کام شروع کیا تو اس وقت رحیم اللہ یوسفزئی اسلام آباد سے شا ئع ہونے والے انگریزی اخبار دی مسلم کے بیوروچیف تھے‘ ملاقاتوں اور تبادلہ خیال کا یہ سلسلہ تقریبا ًروزانہ کی بنیادوں پر شروع ہوا تھا۔ اس دوران رحیم اللہ یوسفزئی صاحب کی قیادت میں پشاور کے صحافیوں نے خیبر یونین آف جرنلسٹس کی بنیادی حیثیت بحال کی۔کہا جاتا ہے کہ کسی بھی انسان کو یا کسی دوست کو اگر پرکھنا ہے تو ان کے ساتھ یا تو لین دین کرویا ان کے ساتھ کسی سفر پر جا ؤاور مجھے یہ موقع نومبر 1987 کے آواخر میں ملا۔ اس وقت کے افغان صدر ڈاکٹر نجیب اللہ نے ببرک کارمل کے بعد اقتدار ملنے پر افغانستان میں حالات کو سدھارنے کا فیصلہ کیا تھا اور انہوں نے مزید تباہی اور بربادی سے ملک کو بچانے کی خاطر قومی مصالحتی پالیسی کا اعلان بھی کیا تھا۔ اس اعلان کو عملی جامہ پہنانے کی خاطرڈاکٹر نجیب اللہ نے 29-30نومبر 1987 کو لویہ جرگہ بلایا تھا اور اسی لویہ جرگہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے قائدین کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔اس دوران پشاور میں قائم افغانستان کے قونصلیٹ نے رحیم اللہ یوسف زئی اور راقم کو بھی لویہ جرگہ میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔ لہٰذا 27 نومبر 1987 کو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کیساتھ قافلے میں رحیم اللہ یوسف زئی اور راقم بھی شامل ہوگئے۔طورخم کی سرحدی گذرگاہ کو عبور کرنے کے بعد ارد گرد کے پہاڑوں میں روپوش افغان مزاحمت کاروں نے جب جدید اور خود کار ہتھیاروں سے فائرنگ کا سلسلہ شروع کیا تو حفاظتی اقدامات کے تحت وفد میں شامل تمام افراد کو بکتر بند گاڑیوں میں بٹھا کر لنڈے خیبر کے اس پار مہمند درہ کے ضلعی ہیڈ کوارٹر تک پہنچایا گیا اس کے بعد 11/9 سے قبل جون، جولائی 2001 میں راقم ان صحافیوں میں شامل تھا جو رحیم اللہ یوسفزئی کی قیادت میں امریکی حکومت کی دعوت پر امریکہ گئے تھے۔ اسی طرح سیفما کے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے سلسلے میں بنگلہ دیش کے ساحلی شہر کاکس بازار بھی جانے کا موقع ملا تھا یقینا رحیم اللہ یوسف زئی کوصحافت کے شعبے میں ایک درسگاہ کی حیثیت حاصل ہے۔انہوں نے پشتونوں کی قسمت تبدیل کرنے کیلئے قلم اور زبان کے ذریعے بہت کاوشیں کی ہیں۔ ان کی رحلت سے یقینا پاکستان اورافغانستان بالخصوص پختونخوا کی دھرتی ایک بہت بڑی آواز سے محروم ہوگئی ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کی وفات سے جو خلا پیدا ہواہے وہ کبھی پُر نہیں ہو سکے گا۔