استنبول کو دنیا کا واحد شہر قرار دیا جاتا ہے جو 2 براعظموں ایشیا اور یورپ میں واقع ہے۔
آبنائے باسفورس سے استنبول کے ایشیائی اور یورپی حصے الگ ہوتے ہیں اور اس آبنائے کا تنگ ترین مقام محض 700 میٹر چوڑا ہے۔
یعنی دونوں براعظم ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔
یہ آبنائے بحیرہ اسود کو بحیرہ مرمرہ سے ملاتی ہے اور اس کے جنوبی حصے میں ایک چھوٹا جزیرہ 2 براعظموں کے درمیان موجود ہے۔
میڈن ٹاور کے نام سے معروف اس جزیرے کی تاریخ ڈھائی ہزار سال پرانی ہے جس دوران اسے متعدد مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
اسے 410 قبل مسیح میں کسٹم چیک پوسٹ کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا، پھر یہ دفاعی ٹاور، قلعے، لائٹ ہاؤس، قرنطینہ اسپتال، ریڈار اسٹیشن اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا۔
حال ہی میں اس کی تعمیر نو کرنے والے ماہرین میں شامل Han Tümertekin کے مطابق ڈھائی ہزار سال کے دوران اکثر اس جزیرے کو باسفورس کے وسط میں ایک اسرار کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
یہ استنبول کے ایشیائی اور یورپی دونوں حصوں کو دکھاتا ہے مگر ماضی میں وہاں لوگوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
21 ویں صدی میں یہ ایک سیاحتی مرکز بن چکا ہے جہاں سے لوگ استنبول شہر کے ایشیائی اور یورپی حصوں کا نظارہ کرتے ہیں۔
حالیہ تزئین نو کے بعد یہ جزیرہ لوگوں کی زیادہ توجہ کا مرکز بنا ہے۔
2024 میں جن شہروں کا سیاحوں نے سب سے زیادہ رخ کیا گیا، اس میں استنبول دوسرے نمبر پر رہا اور ایک تخمینے کے مطابق وہاں 2 کروڑ 30 لاکھ افراد مختلف ممالک سے گھومنے کے لیے آئے۔
آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق اس جزیرے میں سب سے پہلے ایک ٹاور تعمیر کیا گیا تھا جس کا مقصد بحیرہ اسود سے گزرنے والے بحری جہازوں کا معائنہ اور محصول وصول کرنا تھا۔
12 ویں صدی میں بازنطینی شہنشاہ Manuel I Comnenus نے وہاں ایک دفاعی ٹاور تعمیر کیا اور ایک زنجیر وہاں سے کھینچ کر دوسرے ٹاور تک پہنچائی گئی تاکہ وہاں سے گزرنے والے جہازوں کو کنٹرول کیا جاسکے۔
1453 میں عثمانی سلطنت نے استنبول کو فتح کیا تو سطان محمد فاتح نے لکڑی کے ٹاور کی جگہ پتھر کا قلعہ وہاں تعمیر کیا۔
17 ویں صدی میں ٹاور کے شمالی حصے میں ایک لالٹین لٹکائی جانے لگی اور اسے لائٹ ہاؤس کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
1830 کی دہائی میں ہیضے کی وبا کے طور اس ٹاور کو قرنطینہ اسپتال کے طور پر استعمال کیا گیا اور مریضوں کو شہر سے وہاں منتقل کیا گیا تاکہ صحت مند افراد وبائی مرض سے محفوظ رہ سکیں۔
مئی 1992 میں اس ٹاور کو شاعر استعمال کرنے لگے اور اسے جمہوریہ شاعری قرار دیا۔
اس ٹاور کو باسفورس کا موتی بھی کہا جاتا ہے۔
اس جزیرے پر ٹاور کی تعمیر کے حوالے سے بھی کچھ کہانیاں مشہور ہیں۔
جیسے ایک کہانی میں کہا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ کو نجومی نے خبردار کیا تھا کہ اس کی بیٹی سانپ کے ڈسنے سے مر جائے گی، تو اس نے بیٹی کے تحفظ کے لیے ٹاور تعمیر کیا اور وہاں خوراک کی باسکٹ بھیجنے لگا۔
مگر ایک سانپ باسکٹ کے ذریعے وہاں پہنچا اور بادشاہ کی بیٹی کو ڈس کر ہلاک کر دیا۔
حالیہ تزئین نو میں اس جگہ میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور کافی کچھ مرمت کیا گیا ہے تاکہ اسے آنے والی صدیوں میں بھی محفوظ رکھا جاسکے۔
استنبول سے وہاں کا سفر سستا نہیں بلکہ وہاں کی داخلہ فیس 27 یورو ہے جبکہ کشتی کے ذریعے وہاں پہنچنے پر مزید 5 یورو خرچ کرنا پڑتے ہیں۔