سال 2024: پاکستان میں 14 لاکھ بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے

اگرچہ سیلاب اور خشک سالی جیسے ماحولیاتی جھٹکے بچوں کی خوراک تک رسائی کو تیزی سے خطرے میں ڈال رہے ہیں، لیکن تازہ ترین تخمینوں سے پتا چلتا ہے کہ 2024 میں پاکستان میں 14 لاکھ سے زیادہ بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے۔

بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیم ’سیو دی چلڈرن‘ کی جانب سے جاری کیے گئے تجزیے کے مطابق پاکستان دنیا کے سب سے زیادہ ماحولیاتی خطرے سے دوچار ممالک میں سے ایک ہے، جہاں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد، 20 فیصد سے زیادہ غذائیت کی کمی کا شکار ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔

تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ 2024 میں دنیا بھر میں کم از کم ایک کروڑ 82 لاکھ یا فی منٹ تقریباً 35 بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے، تنازعات اور ماحولیاتی بحرانوں نے سال بھر میں کم از کم مزید 8 لاکھ بچوں کو بھوک کی طرف دھکیل دیا۔

تجزیے کے مطابق 2001 میں 2 کروڑ 15 لاکھ سے زائد بچے بھوک کی حالت میں پیدا ہوئے، 2018 میں یہ تعداد کم ہو کر ایک کروڑ 45 لاکھ رہ گئی تاہم پھر 2019 میں بڑھ کر ایک کروڑ 53 لاکھ ہوگئی، ایک اندازے کے مطابق 2024 میں کم از کم ایک کروڑ 82 لاکھ بچے غذائیت کی کمی کے ساتھ پیدا ہوئے۔

اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کے اعداد و شمار کے مطابق 2024 میں بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد میں ایک سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً 5 فیصد اضافہ ہوا اور 2019 میں ریکارڈ کیے گئے ایک کروڑ 53 لاکھ بچوں کے مقابلے میں 19 فیصد اضافہ ہوا ہے جب بچوں کی بھوک سے نمٹنے میں پیش رفت رکنا شروع ہوئی تھی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ تنازعات، نقل مکانی، شدید موسمی واقعات اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عالمی سطح پر بچوں کی غذائیت میں کمی کا سبب بنایا ہے۔

اس سال بھوک کی حالت میں پیدا ہونے والے بچوں میں قحط یا شدید غذائی عدم تحفظ کے تباہ کن حالات کے خطرے سے دوچار ممالک میں پیدا ہونے والے بچے شامل ہیں جن میں جنوبی سوڈان، ہیٹی، مالی اور سوڈان شامل ہیں، جہاں غذائی قلت ملک کی 18 ریاستوں میں سے نصف تک پھیل چکی ہے۔

اس کے علاوہ نومبر کے اوائل میں اس بات کا قوی امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ شمالی غزہ کی پٹی میں قحط پڑ سکتا ہے یا پہلے ہی جاری ہے اور آنے والے مہینوں میں فلسطینی علاقوں میں 3 لاکھ 45 ہزار افراد کو تباہ کن بھوک کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مقبوضہ فلسطینی علاقے کو غذائی قلت سے متعلق ایف اے او کے سالانہ اعداد و شمار میں شامل نہیں کیا گیا ہے، لیکن یہ انتباہ بھوک سے متعلق معروف عالمی اتھارٹی انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن کی طرف سے آیا ہے۔

’سیو دی چلڈرن‘ میں بھوک اور غذائیت کی عالمی سربراہ حنا اسٹیفنسن کا کہنا ہے کہ اس سال ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد نوزائیدہ بچے یعنی فی منٹ 35 بچے ایک ایسی دنیا میں پیدا ہوئے جہاں ان کی زندگی کے ابتدائی لمحات سے ہی بھوک ایک حقیقت ہے، بھوک کی کوئی حد نہیں ہوتی، یہ بچپن کو ختم کرتی ہے، بچوں کی توانائی کو ضائع کرتی ہے اور ان کا مستقبل چھیننے کا خطرہ بن جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کو کلاس میں کھیلنے یا اپنے دماغ کو وسعت دینے کے لیے آزاد ہونا چاہیے، کسی بھی بچے کو اس بارے میں فکر مند نہیں ہونا چاہیے کہ ان کا اگلا کھانا کب ہوگا۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں خوراک، غذائیت، صحت کی دیکھ بھال، صاف پانی، صفائی، حفظان صحت، سماجی تحفظ اور ذریعہ معاش کی مدد کی اشد ضرورت والے بچوں اور خاندانوں کو انسانی زندگی بچانے والی خدمات کے لیے فوری فنڈنگ اور محفوظ رسائی کی ضرورت ہے، ہمارے پاس ماضی کی طرح اس وقت غذائی قلت کا شکار بچوں کی تعداد کو نمایاں طور پر کم کرنے کے آلات موجود ہیں۔

حنا اسٹیفنسن نے مزید کہا کہ اگر ہم بھوک اور غذائی قلت کی بنیادی وجوہات سے نہیں نمٹتے تو ہم بچوں کے لیے کی جانے والی پیش رفت کو پلٹتے ہوئے دیکھیں گے۔

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ خوراک کے بحران میں بچے ہمیشہ سب سے زیادہ کمزور ہوتے ہیں اور کھانے کے لیے کافی مقدار اور مناسب غذائی توازن کے بغیر بچوں کو شدید غذائی قلت کا خطرہ ہوتا ہے، غذائیت کی کمی سے ذہنی اور جسمانی نشوونما متاثر ہوتی ہے، مہلک بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور بالآخر یہ موت کا سبب بن سکتی ہے۔

ان ممالک میں جہاں کم از کم 20 فیصد آبادی کو بھوک کا سامنا ہے، کانگو میں اس سال سب سے زیادہ 16 لاکھ بچوں کی غذائی قلت کے ساتھ پیدا ہونے کی توقع کی جا رہی تھی جبکہ کانگو اور عالمی سطح پر تنازعات بھوک کی ایک اہم وجہ بنے ہوئے ہیں۔

سیو دی چلڈرن عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کر رہا ہے کہ وہ شدید خوراک اور غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات کو حل کریں جس میں تنازعات کو کم کرنے کے لیے سخت محنت کرنا، موسمیاتی بحران اور عالمی عدم مساوات سے نمٹنے اور صحت، غذائیت اور سماجی تحفظ کے زیادہ لچکدار نظام کی تعمیر شامل ہے۔