زندگی میں کتنی ہی ناکامیاں انسان کے سامنے آتی ہیں جو اس کو بظاہر بہت برباد کر دیتی ہیں لیکن امید کی طاقت اتنی پرزور ہوتی ہے کہ ہم اٹھ کر دوبارہ زندگی کی چاہ میں کھڑے ہو جاتے ہیں اور کامیابی کیلئے تگ ودو میں لگ جاتے ہیں کتنے ہی عزیز اور جان سے پیارے لوگ ہمارے درمیان سے اٹھ کر دور بہت دور دوسری دنیا میں چلے جاتے ہیں شاید جن کے بغیر ہم سانس لینا بھی مشکل سمجھتے ہیں لیکن وقت اپنے زور سے ہمارے لئے مرہم بن جانا ہے ہم انہی پیاروں کے بغیر سانس بھی لیتے ہیں اور زندگی کو آگے کی طرف لے جانے کیلئے راستوں کا انتخاب بھی کرتے ہیں‘زندگی بھی موسموں کے گرد گھومتی ہے ہم کبھی سردی کو گلے لگاتے ہیں تو گرمی میں حرارت کو اپنے سے دور کرنے کیلئے مشقت کرتے ہیں‘ بہار کے موسم ہمیں خوش کر دیتے ہیں تو خزاں کی رت آتے ہی ہم بھی زرد ہو جاتے ہیں زندگی ان ہی موسموں کی مانند ہے ابھی انسان کے حالات سردی کی سردگیری اور سختی سے نبرد آزما ہیں تو کبھی گرمی ہمیں باہر نکلنے پر مجبور کردیتی ہے کبھی ایسی باتیں سامنے آجاتی ہیں کہ دل باغ کی طرح کھل اٹھتا ہے تو کبھی مصیبتیں ایسے تھپر مارنا شروع کرتی ہیں جیسے ہم بے کار اور فضول شے کی مانند کہ دل چاہتا ہے دنیا سے ہر رشتے سے تعلق ہی توڑ لیا جائے کوئی نظر ہی نہ آئے کوئی محبت نہ جتائے‘ہمدردی زہر کی طرح لگنے لگتی ہے‘ اپنی ہی نظروں سے غائب ہو جانے کو دل چاہتا ہے اور پھر ایسا وقت آتا ہے کہ محفل سجانے کو دل چاہتا ہے جیسے سب قریب آجائیں ہمدردیاں بھر بھر کر نچھاور کردی جائیں کوئی سکینڈ کیلئے بھی نظروں سے دور نہ جائے سوچیں تو ایک بار یہ سوال ضرور ابھرتا ہے یہ زندگی آخر ہے کیا اور انسانی مزاج پر اتنی حاوی کیوں ہے انسان لاچار اور مجبور پیدا ہوا کہ ہر ہر ضرورت کیلئے ماں کا محتاج‘ باپ کا محتاج‘ زبان گونگی‘ ہاتھ پاؤں ہل رہے ہیں‘ اور پھر دن مہینے گھڑیاں بیتنے لگتی ہیں‘ رینگتا رینگتا‘ دوڑنے لگتا ہے چلنے لگتا ہے سوچنے لگتا ہے لیکن ملنے پر رونے لگتا ہے خوشی ملنے پر ہنسنے لگتا ہے اور پھر ایسا طاقتور اور اتنا بڑا بن جاتا ہے کہ مقابلے پر آجاتا ہے اور وقت کا پہیہ ان ہو جاتا
ہے عمر کے شب و روز اس کو بوڑھا بنادیتے ہیں وہ پھر سے لاچار ہو جاتا ہے بچے کی مانند لاغر ہو جاتا ہے محتاج ہو جاتا ہے اور وہ جن کو زندگی کی تمام توانائیاں دے کر نشوونما کی‘ پرورش کی پڑھایا سکھایا‘ سمجھدار بنایا‘ عقل سکھائی ان ہی کے دروازے پر اپنا بڑھایا جیسا وجود ڈالنا پڑیگا‘ اور آخر ایک نامعلوم مسافت کی طرف لوٹ گیا جہاں سے کوئی پلٹ کر نہ آیا زندگی کا فلسفہ یہی پر ختم ہو جاتا ہے‘ہر نئے سال کی نوید آتی ہے ہم بھی ان شاعر شاعرات‘ ادباء‘ فنکاروں‘ عظیم لوگوں کو یاد کرتے ہیں اس نے کیا نام پیدا کیا وہ اپنے فن میں یکتا تھا اس جیسا کوئی لکھتا نہ تھا اس جیسا شعر کوئی کہہ ہی نہیں سکتا لیکن ایک دن ایسا آجاتا ہے کہ اس کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے وہ نام پیدا کرتا ہے اس کی تعریف ہوتی ہے تو ثابت یہ ہوا کہ زندگی پر فخر غرور کرنے والے جان لیں کہ آخر فنا ہے وہ صحت تدرستی جس کی طاقت پر ہم کتنا ناز کرتے ہیں وہ وقت کی ٹھوکر کی اک مار ہے‘ ہسپتال چلے جاؤ تو ہر کمرہ‘ برآمدہ صحن‘ وارڈز ایسے ایسے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں کہ جیسے کوئی صحت مند وجود ہی نہیں ہے ہسپتال کے کمروں وارڈوں میں ڈاکٹر نرسیں مریض کے لواحقین ایک افراتفری غم زدہ حالات میں پھر رہے ہیں کیا صرف زندگی کی بقاء کیلئے کسی طرح زندگی مل جائے‘تندرسی مل جائے‘دوائیوں والی دوکانوں پر کچھ دیر کیلئے دیکھنا شروع کر دیں تو کیسے کیسے غریب لاچار اور کتنے امیر ترین اپنے پیاروں کی صحت‘تدرستی کیلئے ڈریس کی تھلیاں‘ انجکشن‘ دوائیوں کے ڈبے لے کر ڈاکٹروں کی طرف واپسی کی راہ اختیار
کررہے ہیں‘ہر شعبہ زندگی کے لوگ اپنے تئیں محنت کی معراج پانے کی تگ ودو میں لگے ہوتے ہیں پردیس میں غریب الوطن اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کو آرام و آسائش سے بھرنے کیلئے اپنے وطن اپنی پہچان کو پیچھے چھوڑ کر بہت دور آگئے ہیں کیونکہ انسان زندگی کو حسین تر بنانے کیلئے کوئی کوششیں بھی کر سکتا ہے وہ اپنی ساری طاقتیں اپنی اولاد کو سنوارنے پر لگانے کی بھرپور توانائیاں خرچ کرتا ہے کبھی خود بھی سوچتی ہوں کہ ہم تو ایک ایسے ملک میں جہاں سے اپنے وطن کا فاصلہ کسی طرح بھی24گھنٹوں سے کم نہیں ہے جہاز کتنی ہزار کلومیٹر کا فاصلہ سینکڑوں کلومیٹر کی رفتار سے طے کر رہا ہوتاہے کئی ایسے قصے ہیں اور کئی ایسی کہانیاں ہیں کہ اپنے پیاروں کے جنازوں کو کندھا دینے کیلئے اولاد نہ پہنچ سکی‘ بس ایک پہیہ ہے جو زندگی کو لے کر گول گول چل رہا ہے‘ ایک نسل اس پہیے کو گول گول گھماتی ہے اپنی زندگی کا چکر پورا کرتی ہے دوسری نسل آگے بڑھ کر پہیہ تھام لیتی ہے‘ انسان ختم ہو جاتا ہے زندگی کا پہیہ چلتا رہتا ہے‘ زندگی کے پاس امید کے بہت دیئے ہیں وہ بجھنے نہیں دیتے موسموں کی سختی‘ زندگی کی سختی جسموں پر نشان چھوڑتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہے اپنے حصے کی محنت‘ اپنے حصے کی مشقت ہرذی شعور نے کرنی ہے اور یہ قدرت کا کرشمہ ہے کہ کسی کو تھوڑی محنت پر بہت نواز دیا جاتا ہے کوئی محنت کی بھٹی میں جلتا رہتا ہے اسے وہ انعام نہیں ملتا جو ملنا چاہئے‘ جس کا وہ مستحق ہے مقدر کے کھیل زندگی کو اور زیادہ دلچسپ بناتے ہیں ہم ہمیشہ زندگی کے ایک سال کے گھٹنے کو خوشی سے مناتے ہیں‘ کسی نے سال کے سورج کے طلوع ہونے پر بہت خوبصورت اشعار کہے تھے۔
اے نئے سال بتا‘ تجھ میں نیا پن کیا ہے۔ ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے۔
آسمان بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمیں‘ ایک ہند سے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں۔
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے۔ کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے۔
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی۔ ورنہ آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی۔