پاکستان میں اس وقت شدید سردی پڑ رہی ہے‘ جب دوستوں رشتہ داروں کو فون کرو تو وہ گیس کے پریشر کی کمی کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں‘ مغرب کے بیشتر ممالک سرد ترین ممالک میں شمار ہوتے ہیں‘ روس بھی اس میں شامل ہے‘ کینیڈا میں اتنی زیادہ برف پڑتی ہے کہ باقاعدہ وارننگ جاری ہو جاتی ہے‘ آسمان سے سفید بارش ہوتی رہتی ہے اور تمام سڑکیں برف کے پہاڑ بنی رہتی ہیں‘ جیسے ہی ذرا برف تھمتی ہے نیلی بتیوں والی گاڑیاں حرکت میں آ جاتی ہیں اور تمام ہائی ویز‘ اندر کی گلیاں‘ چھوٹی سڑکیں مخصوص آلات کی مدد سے صاف ستھری ہوتی جاتی ہیں پھر بھی گاڑیوں میں برف کے ٹائر لگانے پڑتے ہیں تاکہ برف پر گاڑی کے لچنے میں آسانی ہو اور بریک لگانے میں خصوصاً آسانی ہو‘ گھروں کے اندر تو بعض اوقات گرمی لگنے لگتی ہے اور ایک عام قمیص میں لوگ گھر کے اندر چلتے پھرتے نظر آتے ہیں‘ مجھے یاد ہے بنی گالہ میں میرے گھر میں دسمبر جنوری میں اتنی سردی پڑتی ہے اور گیس ندارد‘ تو میں ہر قسم کے موٹے کپڑے‘ دستانے اور دو تین جرابیں پہن لیتی تھی‘ ظاہر ہے جب سہولت نہ ہو تو پھر کپڑوں کے ساتھ انسان اپنے آپ کو گرم رکھ سکتا ہے‘ میرا اپنے دوستوں کو بھی یہی مشورہ ہوتا ہے لیکن کتنے ایسے لوگ ہیں کہ جن کے پاس گرم کپڑے بھی میسر نہیں‘ ایک دور دراز علاقے کے استاد سے بات ہو رہی تھی اس کا کہنا تھا کہ سردی بہت زیادہ ہے بچوں کے پاس ڈھنگ کا سوئیٹر بھی سکول پہننے کو نہیں ہے‘ کبھی کبھی مخیر حضرات سکولوں میں بھی جا کر طلباء کی مدد گرم سوئیٹرز‘ جوتوں اور جرابوں سے کر دیا کریں‘ بے شک سیکنڈ ہینڈ خرید لیں‘ کتنے ہی غریب لوگ آپ کی نگاہوں کے منتظر ہیں۔ مجھے یاد ہے ہمارے سکول میں بچپن میں غریب لڑکیوں میں اون بانٹی جاتی تھی تاکہ ہم یونیفارم کے سوئیٹر بنا سکیں اور وہ بھی ایسے پوشیدہ طور پر کہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو‘ میں خود بھی انہی طالبات میں شامل تھی کہ جو اون لیتی تھی اور اپنے یونیفارم کا سوئیٹر بناتی تھی‘ ان دنوں لنڈا بازار کا وجود نہ تھا‘ اب تو لنڈا بازار نے بہت حد تک غریب غرباء کے کپڑوں کی ضروریات کو پورا کر رکھا ہے لیکن لنڈے کے وہ سوئیٹر جو 10 روپے 20 روپے کے ہوتے تھے اب 200 سے 300 کے ہوتے ہیں یعنی غریب کی پہنچ سے وہ
بھی دور کر دیئے گئے ہیں‘ جہاں میں رہتی ہوں وہاں کا نظام اس قدر مضبوط ہے کہ نہ گیس کم ہوتی ہے نہ پریشر کی شکایت ہوتی ہے‘ گرم نلکے سے گرم پانی آتا ہے اور ٹھنڈے نلکے سے ٹھنڈا پانی آتا ہے‘ ٹنوں برف پڑنے سے پائپوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا‘ یہاں درد دل رکھنے والے انسان ہوتے ہیں اور عوام کو ایسے جوابدہ ہوتے ہیں کہ جیسے عوام کا ان کا گریباں پکڑنے کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے‘ عوام بھی ان کے کام کو دیکھ کر ان کو منتخب کرتے ہیں‘ پرائم منسٹر کینیڈا کو نہ صرف وزیراعظم شپ سے استعفیٰ دینا پڑا بلکہ جماعت کی رہنمائی بھی چھوڑنا پڑ گئی اس لئے کہ وہ کینیڈا میں مہنگائی کو کم نہ کر سکے اور امیگریشن کو لے کر ایسی غلط
پالیسی اپنائی کہ سہولتیں ناپید ہو گئی ہیں‘ سکولوں میں بچوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے‘ کنٹینرز میں بچوں کی کلاسز ہوتی ہیں‘ ہسپتالوں میں ساری رات بیٹھے رہو تو ہی آپ کا نمبر آتا ہے‘ سبزیاں پھل گوشت یوں بک جاتا ہے کہ لگتا ہے مفت بک رہا ہے۔ پشاور شہر میں اس طرح کا تجربہ ہمیں 1980 کی دہائی میں ہوا تھا جب ایک پورا ملک ایک شہر میں آ بسا تھا‘ کھانے کی کوئی چیز اصل شہریوں کیلئے بچتی ہی نہ تھی‘ آبادی بہت بڑا بم ہوتی ہے جو سب کچھ تباہ کرنے کے درپے ہوتی ہے‘ جن ممالک کی آبادی زیادہ ہے وہاں غربت ہے‘ لاچاری اور بیروزگاری ہے اور جہاں آبادی کم ہے وہاں خوشحالی اور آباد کاری ہے‘ پاکستان میں بھی جب تک آبادی ایک خاص حد تک تھی بہت سہولتیں تھیں اور خوشحالی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اسلام آباد کی طرف آتے ہیں تو خوشگوار ہوائیں استقبال کرتی تھیں‘ ہوا کی خوشگواری سے ہم بڑی خوشی سے کہتے تھے اسلام آباد آ گیا ہے
اور اب اسلام آباد بھی شدید آبادی کے دباؤ کا شکار ہے‘ گرد‘ دھواں‘ گاڑیاں‘ لوگ‘ غرض دل کرتا ہے کوئی نیا شہر دیکھا جائے اس لئے نئے شہروں کے بنانے پر زور دیا گیا ہے تاکہ آبادیوں کا دباؤ ایک شہر پر کم ہو جائے۔ کینیڈا میں ہر طرف لوگ‘ گاڑیاں اور بے ہنگم رش نظر آتا ہے اسی لئے یہاں وزیراعظم کا امیگریشن کا بے تحاشا دباؤ لوگوں نے مسترد کر دیا اور اس کو استعفیٰ دینا پڑ گیا۔ یہ روایت بھی ترقی یافتہ ملکوں میں ہی ہے کہ لوگوں کی ناپسندیدگی پر عہدہ چھوڑ دیا جاتا ہے اس پر زبردستی حق نہیں جمایا جاتا۔ ایک دفعہ کینیڈا کا ایک نہایت ذہین فطین وزیر اپنی دوست کے ساتھ سیر کرتے ہوئے کسی پہاڑی پر سرکاری کاغذات بھول آیا تھا جو کسی عام شہری کو مل گئے تھے بس پھر کیا تھا اس وزیر کی ایسی سبکی ہوئی کہ اس کو وزارت سے استعفیٰ دینا پڑ گیا اور پھر ایسے بھلے لوگ ہیں مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹنے کا اعلان کرتے ہیں اور ساتھ معافی بھی مانگتے ہیں۔ یہ سب باتیں ترقی پذیر ممالک کیلئے ایک سبق کی مثال ہونی چاہئیں اور صرف وزیر‘ مشیر یا وزیراعظم نہیں کسی بھی شعبہئ زندگی میں آپ کا کام اچھا نہیں رہا تو آپ اپنا کام دوسروں کو سپرد کر دیں ہو سکتا ہے بلکہ یقینا آگے آنے والا نئے ولولے کے ساتھ اس کام کو بہترین کر لے گا۔ بزرگوں کو سردی میں اپنا خصوصی خیال رکھنا بہت ضروری ہے‘ خاص طور پر جوڑوں کے مریض کو پورے گرم کپڑوں کا استعمال‘ سردی میں باہر نہ نکلنے کا خیال‘ اپنی دوائی وقت پر لینے اور گرم اشیاء کا استعمال ضروری ہے‘ بچوں کو چاہئے کہ وہ بزرگوں کی رضائی کا خیال رکھیں کہ وہ صحیح گرم ہے‘ ان کے والدین کی جرابیں‘ جرسی‘ مفلر‘ کوٹ بالکل سردی کے تقاضے پورے کر رہا ہے‘ یقینا جوان لوگوں میں برداشت زیادہ ہوتی ہے لیکن والدین کے بڑھاپے میں آپ کو آگے بڑھ کر ان کا خیال رکھنا ہے‘ وہ کبھی بھی خود سے آپ کو نہیں کہیں گے کہ ہماری جرابیں پرانی ہو چکی ہیں‘ ہمارا سوئیٹر اب گرم رکھنے کے قابل نہیں اس لئے کہ صرف خودداری ہی نہیں وہ بچوں کو تکلیف میں ڈالنا بھی پسند نہیں کرتے‘ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ خود اس بات کا خیال رکھیں‘ گھر کے دوسرے رشتوں پر اس ذمہ داری کو ڈالنے سے گریز کریں‘ اسی طرح بچوں کو بھی گرم رکھیں تاکہ وہ سردی کی بیماریوں سے محفوظ رہیں۔