ایک وقت تھا جبکہ وفاقی حکومت کا کوئی ایسا مراسلہ یونیورسٹیوں میں آتا جس میں یونیورسٹی ملازمین کے مفاد کی بات ہوتی تو یار لوگ بڑے تپاک سے خیرمقدم کرتے ہوئے کہہ دیتے کہ وہ تو مرکز کیساتھ ہیں‘اعلیٰ تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کیساتھ صوبے کا کیا کام؟اور پھر جب کٹوتی کی بات ہوتی تو کوئی دقیقہ ضائع کئے بغیراپنے آپ کو صوبے سے جوڑ لیتے‘ یہ سلسلہ عرصہ سے جاری رہا یہاں تک کہ اٹھارویں ترمیم نے ان لوگوں کو دو کشتیوں میں بٹھادیا اب مرکز نے تو خیر گزشتہ کئی سال سے بارہا کوشش کی کہ انہیں اپنی کشتی سے اتار کر صرف صوبائی کشتی کے سوار بنادیں لیکن تاحال قطعی طور پر ایسا نہ ہوسکا لہٰذا اب یونیورسٹی ملازمین اپنے آب و دانہ کیلئے صوبے اور وفاق دونوں کی راہ تک رہے ہیں‘ ہاں مگر یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ جب اٹھارویں ترمیم کے ذریعے یونیورسٹیوں کو صوبوں کے حوالے کیاگیا تو یہ لوگ خاموش بیٹھے ہوئے تھے اس سے قبل جب ایک وزیراعظم نے پاکستان میں غالباً پہلی بار عالمی یوم معلم یا ورلڈ ٹیچر ڈے کی تقریب میں اساتذہ کو اپ گریڈ کرنے کا اعلان کیا تو یونیورسٹی کے ٹیچر تو اپ گریڈ ہو کر لیکچرار گریڈ17سے18میں پہنچ گیا جبکہ پروفیسر کو20کی جگہ21گریڈ مل گیا مگر یونیورسٹیوں سے باہر کالجز اساتذہ وہی پرانی حالت میں رہ گئے اس کیخلاف بھی یونیورسٹی اساتذہ نے آواز نہیں اٹھائی‘ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہر بجٹ میں تنخواہیں‘ پنشن و مراعات بڑھادی جاتی ہیں مگر تعلیمی بجٹ مسلسل گھٹتا جارہاہے‘یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹیاں اب تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی سے قاصر ہوتی جارہی ہیں‘اب ایسی ابتر حالت میں طلباء کی سکالرشپس اور جدید عصری علوم کی ترویج اور تحقیق کے فروغ کا کیا بنے گا؟ یہ سوال جواب طلب ہے ان سطور کی تمہید میں مراسلے کا
ذکر کیاگیا لیکن مراسلوں میں بھی تو فرق ہوتا ہے‘مطلب کوئی خوشی کا پیغام لیکر آتا ہے اور کوئی ملازمین کو سیخ پا بنانے کا اہتمام کرتا ہے‘ جامعات کی زبوں حالی کے اس دور میں ملازمین کو محض اپنی فکر لاحق ہوچکی ہے‘ مطلب جب تنخواہ ہفتہ بھر مؤخر ہو جائے تو سڑکوں پر آکر دھرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن تعلیمی بجٹ میں اضافے اور جامعات کی قومی حیثیت کی بحالی کیلئے آواز اٹھانا شاید ان کے لائحہ عمل یا مسائل میں شامل نہ ہو؟ دھرنے کے تذکرے کیساتھ یاد آیا کہ احتجاج کا یہ نیا طریقہ غالباً2014ء میں دریافت کرکے ملک بھرمیں پھیلا دیاگیا اور اب حالت یہ ہے کہ چاہے اساتذہ ہوں یا غیر تدریسی ملازمین‘ طلباء ہوں یا تاجر سب کے سب احتجاج کا یہ نیا طریقہ آزماتے ہوئے نظرآرہے ہیں‘ البتہ ممکن ہے کہ یونیورسٹیوں کی حد تک ایک نیا یعنی ”اوو۔اوو“ والے احتجاج کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے کیونکہ صوبے کے انتظامی سربراہ نے جامعہ پشاور کے حالیہ دور میں جو اعلانات اور اس پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں اس جدید تر طریقے کو اپنانے کی جو تلقین کی ہے یونیورسٹی ملازمین کے مطابق اس کے بعد محکمہ اعلیٰ تعلیم کے مراسلہ نے اس نئے
طریقہ احتجاج کی راہ ہموار کردی ہے‘ یونیورسٹی اساتذہ اور غیر تدریسی ملازمین کی یونینز مذکورہ مراسلہ کے خلاف ایکا کرکے صف آراء ہونے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں‘دیکھتے ہیں کہ آگے چل کر تعلیم اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا کیا حشر ہوگا؟ مراسلہ میں بھرتی اور ترقی کیلئے حکومتی مرضی کے جس نئے طریقے کی بات کی گئی ہے وہ یونیورسٹی اساتذہ کیلئے بوجوہ قابل قبول نہیں اور وہ اس لئے کہ یونیورسٹی کی قانونی باڈیز یعنی فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی‘ سنڈیکیٹ‘ سینیٹ اور منظور شدہ مروجہ قواعد و ضوابط کے تحت بھرتی ضرورت کے مطابق اہلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے جبکہ ترقی سنیارٹی‘ ہارڈ شپ اوراساتذہ کیلئے اس کے ساتھ ساتھ ریسرچ میں بہتر کارکردگی کی بنیاد پر دی جاتی ہے‘ اب مراسلہ کے مطابق جب یونیورسٹی اساتذہ ترقی کیلئے ایٹا ٹیسٹ میں بیٹھے ہوئے نظر آئینگے تو یقیناً یہ ایک عجیب سی تبدیلی ہوگی بالکل ایسی جو کہا جاتا رہاکہ ”تبدیلی آئے گی نہیں تبدیلی آگئی ہے“ ویسے انجینئرنگ کے ملازمین قدرے خوش نصیب ٹھہرے کہ پرو یا قائمقام وائس چانسلر کے طورپر انجینئر قیصر علی کی دوسری مرتبہ آمدکے ساتھ ہی اٹھ کر سڑک خالی کرکے اپنے کام کاج میں لگ گئے حالانکہ انہیں تنخواہ تو10 جنوری کو ہی ملی تھی لیکن کرتا دھرتا نے اس خیال سے بات پوشیدہ رکھی کہ دھرنا متاثر نہ ہو‘ اس دوران اسلامیہ کالج جیسے بوجوہ خودکفیل ادارے کے ملگری بابوگان تنخواہ کے لئے نہیں بلکہ ترقیوں اور مراعات کیلئے دھرنا احتجاج کا طریقہ آزماتے ہوئے اپنے کیمپ کو دوام دے رہے ہیں‘ چلئے یہ تو دسمبر کی بات تھی جنوری کی تنخواہ کا کیا بنے گا؟ کہتے ہیں کہ وفاقی گرانٹ آرہی ہے یعنی تین مہینوں کی قسط ہوگی مگر سوال یہ ہے کہ اس میں پنشنرز کا حصہ ہوگا یا پھرمحروم رہیں گے؟ حالانکہ پنشن تنخواہ سے زیادہ ضروری ہے۔