انسان کی زندگیوں میں کتنے ہی رشتے ہوتے ہیں جو بہت گہرے ہوتے ہیں اور پھر خون کے ایسے رشتے جو رب کی طرف سے ودیعت کئے ہوئے ہوتے ہیں ان سے انسان چاہ کر بھی دور نہیں رہ سکتا اس میں ہماری کوئی چوائس شامل نہیں ہوتی جس کو رب ہماری بہن یا بھائی بنا دے چاچا‘ ماما بنا دے‘ ماں باپ بنا دے‘ سب تقدیر پر منحصر ہوتا ہے‘ شاید وقتی طور پر ان رشتوں میں دراڑیں آجاتی ہیں ناراضگیاں پیدا ہو جاتی ہیں لیکن کبھی انسان ان سے ہمیشہ کیلئے کنارہ کشی اختیار نہیں کر سکتا اور اگر ایسا کر بھی لیتا ہے تو بہرحال ان کا وجود کہیں نہ کہیں ہمارے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے پھر آخیر عمروں میں تو اولاد کو ماں باپ سے شکوے شکایتیں شروع ہو جاتی ہیں اور یقینا ماں باپ اولاد کو باربار اپنی طرف کھینچتے ہیں لیکن اولاد بار بار پرے ہٹاتی ہے‘ لیکن ہمیشہ اور ہر جگہ ایسا نہیں ہوتا‘ ایسے بچے بھی اس دنیا میں موجود ہیں اور مغرب میں بھی موجود ہیں جو اپنی ماں یا باپ کی ایک آواز پر لپک کر پہنچتے ہیں ان کو کسی بدلے‘ جائیداد یا روپے‘ پیسے کا لالچ نہیں ہوتا اور اولاد اچھی ہو یا نہ ہو فرمانبردار ہو یا نافرمان‘ وراثت بہرحال اس کا حق ہوتی ہے مبادا کہ والدین خود کوئی وصیت لکھ جائیں اور ایسے والدین کی فرمانبردار اولاد بھی دیکھی ہے جن کے پاس ایک پائی بھی نہیں ہوتی نہ تو اس اولاد کا گھر تنگ پڑ جاتا ہے اور نہ ہی اس سے جڑا ہوا کوئی رشتہ اسکو فرمانبرداری یا محبت سے روک سکتا ہے کبھی میں سوچتی ہوں کہ اولاد جو یہ عذر کرتی ہے کہ میرا گھر چھوٹا ہے ورنہ میں ماں کو رکھ لیتا یا باپ کو اپنے پاس رکھ لیتا یا دونوں کو رکھ لیتا‘ کیا وہ بھول جاتے ہیں کہ چھوٹے سے گھر میں کئی بہن بھائی والدین کی گود میں پلتے ہیں ماں باپ کبھی نہیں کہتے کہ گھر چھوٹا ہے تم لوگ زیادہ ہو دو تین تم میں سے گھر سے نکل جائیں‘ ماں گیلے بستر پر لیٹ جاتی ہے اور اپنے بچے کیلئے ہر ممکن سہولت دیتی ہے میں کئی ایسے والدین کو جانتی ہوں کہ جنہوں نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم دی‘ بڑے گن سکھائے ان کے قدم اتنے بڑے ہو گئے کہ وہ دور بہت دور ترقی کی سیڑھیاں طے کرتے ہوئے آسمانوں تک پہنچ گئے ان کے گھر بھی بڑے ہوگئے ان کے سامنے
بڑے بڑے گیٹ لگ گئے اس کے آگے چوکیدار کھڑے ہوگئے لیکن ماں باپ کیلئے ان کا دل‘ ان کا گھر‘ تنگ پڑ گیا‘ اور ایسی خوش نصیب اولاد بھی دیکھی ہے کہ انہوں نے اپنے والدین کیلئے ساری عمر شادی نہیں کی‘ ان کی دیکھ بھال‘ حفاظت اور خدمت کی‘ ہماری گلی میں ہی ایک بہت امیر‘ صاحب حیثیت بڑی پوست کا حامل خوبصورت خوب سیرت آدمی رہتا تھا اس نے شادی اس لئے نہ کی کہ اسکی ماں اکیلی تھی‘ اسکی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا وہ نوکروں پر یا اپنے ساتھ کسی جڑے ہوئے رشتے پر ماں پر سمجھوتہ نہ کر سکتا تھا وہ اپنی ماں کے کپڑے اپنے ہاتھوں سے دھوتا
تھا اور نوالے بنا کر اسکو کھلاتا تھا مگر ایک دن اسکی ماں فوت ہوگئی وہ آج بھی ہماری گلی میں رہتا ہے بہت اچھی زندگی گزارتا ہے یقینا جنت کا راہی ہوگا‘ پھر ایسی بدنصیب اولاد بھی اسی دنیا میں ہوتی ہے جو بات بات پر ماں باپ کو ان کی ناکامیوں پر طعنے دیتی ہے اور اپنی بہترین کامیابیوں کا ذکر شدومد کے ساتھ کرتی ہے جو انہوں نے زندگی میں حاصل کرلی ہیں بھول جاتے ہیں کہ بنیادیں تو انہی بوڑھے ہاتھوں نے اس وقت رکھیں جب یہ جوان تھے‘ میں ایک ایسے لڑکے کو جانتی ہوں جو شادی شدہ بھی ہے لیکن اپنے باپ کو ہمیشہ ہسپتالوں میں علاج کروانے کیلئے لے جاتا رہتا ہے جب بھی اس سے بات کرو نہایت دلسوزی سے ان کے مرض کا ذکر کرتا ہے اور ان کا خیال کرتا ہے‘ رب تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ والدین امیر ہوں‘ اچھے ہوں‘ منہ بند رکھتے ہوں‘ پیار کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں تب ہی ان کی فرمانبرداری کرو‘ ہرحال میں تابعداری اور ان کیلئے رحم اور
ہمدردی کرنے کا حکم ہے بالکل ایسے ہی جیسے کئی نافرمان اولادیں بھی دور دراز سے وراثت کا حصہ دار بننے سامنے آجاتی ہیں‘ میں ایک ایسے ماں باپ کو بھی جانتی ہوں اور وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں رب تعالیٰ ان کو جنت میں جگہ دیں جب تک حیات رہے اولاد کے ہاتھوں دکھ اٹھائے وہ اس طرح کہ اپنی زندگی میں ہی ان کی شادیوں پر اپنی محنت سے کمائے ہوئے گھروں کو ان کی بیویوں کے حصے میں لکھ دیا‘ ذرا دن رات پلٹے اور ان ناتواں بوڑھے جسموں کو ان کے گھر سے اس طرح بے دخل کردیاگیا کہ پہلے چھت پر دھوپ سے بچنے کیلئے چھپر پر منتقل کردیاگیا بعدازاں گھر سے باہر‘ آفرین ایسی بیوی پر جس نے بے سروسامانی میں غمزدہ خاوند کو سنبھالا اسلئے کہ دونوں میں بڑھاپے تک الفت اور ہمدردی کا رشتہ قائم رہا تھا‘ کرائے کے گھروں میں مارے مارے پھرتے رہے‘ آنسو ہمیشہ پلکوں پر رہتے تھے میں خود اس کی گواہ ہوں پھر ایک دن خاوند نے آنکھیں موند لیں اور کچھ مہینوں بعد بیوی سوئی اور اٹھ نہ سکی‘ ہائی بلڈ پریشر سے اس کی موت واقع ہو گئی‘ دونوں بچوں کے محتاج نہ ہوئے اللہ پاک بھی اپنے نیک بندوں کی حفاظت جو کرتا ہے۔ میں اس عورت کے مرنے پر گئی تھی وہ دنیا کے تمام غموں سے آزاد ہو چکی تھی‘ اولاد انجانے میں ماں باپ کو بہانوں بہانوں سے ایسی ایسی اذیتیں دیتی ہے جس کا انہیں شاید خود بھی ادراک نہیں ہوتا کہ ایسا کر کے وہ اپنے لئے کون سا گڑھا کھود رہے ہیں‘ ماں سے فرمانبرداری اور محبت کی مثالیں ہمارے مذہب اسلام میں بھری پڑی ہیں‘ مغرب اس لئے اچھا ہے کہ ایسے خوبصورت اولڈ ہوم ہیں بچے اگر مصروفیات کی بناء پر خود ماں باپ کو نہیں رکھ سکتے تو اولڈ ہوم کی فیس ادا کرتے رہتے ہیں‘ وہاں ان کی رہائش‘ علاج‘ خوراک سب بہترین ہوتا ہے لیکن آج بھی ہمارے ملک میں بزرگوں کی قدر کی جاتی ہے‘ ان کا خیال رکھا جاتا ہے‘ ہمیشہ ماں باپ سے دل کی باتیں کریں ان پر ہمدردی نہ جتائیں اور کسی اور کو اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے والدین کا خیال رکھنے کا ذمہ دار ہے‘ والدین صرف آپ کی ذمہ داری ہیں زبر نہیں زیر ہو جا کیوں کہ آگے پیش ہونا ہے۔