بھارتی نام نہاد سیکولر امیج کی اصلیت

 اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارتی جنتا پارٹی کا RSS راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ قریبی ناطہ ہے جس کے ایک رکن گوڈسے نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا تھا ایڈوانی جیسے معتدل مزاج  کے لیڈر کا   بی جے پی کے منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد یہ پارٹی امیت شاہ جیسے متعصب اور کٹر انتہا پسند ہندو کے ہتھے  چڑھ گئی ہے جس سے ہندوستان کے اندر اور بیرون ملک بھی بھارت کا نام نہاد سیکولر  امیج داغدار  ہوا ہے پر اس کے باوجود ایوان اقتدار پر اس کی گرفت ڈھیلی نہیں پڑی اور لگ یہ رہا ہے کہ2034ء تک نریندرا مودی کی حکومت کو اقتدار سے ہاتھ دھونے کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ جب نریندر مودی کو اقتدار میں ا گلے دس سال پورے ہو چکے ہوں گے‘کیونکہ اگر بی جے  پی کو کسی سے خطرہ لاحق ہو سکتا تھا تو وہ صرف کانگریس پارٹی سے ہی ہو سکتا تھا پر کانگریس پارٹی کے جواں سال سربراہ  راہول گاندھی ایک کمزور سیاست دان ثابت ہوئے ہیں اور وہ کرشماتی شخصیت کے مالک بھی نہیں ہیں اس لئے وہ رائے عامہ کو ابھی تک اپنے حق میں استوار نہیں کر سکے کانگریس اب وہ سیاسی پارٹی بھی نہیں رہی جو نہرو یا شاستری کے وقت ہوا  کرتی تھی‘نہرو خاندان کے لیڈروں کو چھوڑ کر اگر اپ کانگریس کے دیگر لیڈروں پر ایک نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ان کا کرپشن کے لحاظ سے ماضی داغدار رہا ہے اور جب تک راہول گاندھی ان سے  اپنی پارٹی کو صاف نہیں کرتے بھارتی عوام الیکشن میں ان کی پارٹی کو گھاس نہیں ڈالیں گے‘ بھارتی جنتا پارٹی جب تک امیت شاہ کے شکنجے ہی رہے گی نریندرا مودی بھارت میں مقیم مذہبی اقلیتیوں کے سینوں پر  مونگ دلتے رہیں گے‘ بھارتی وزیراعظم نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر اسی قسم کا ظلم روا رکھا ہے جو اسرائیلی فلسطینوں سے کر رہے ہیں‘ امریکہ کے ایک سینیٹر مارکو روبیو  کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ اپنے دل میں بھارت کے واسطے  نرم گوشہ رکھتے ہیں اور چین ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتا ان کو امریکہ کی وزارت خارجہ کا قلمدان حوالے کر کے صدر ٹرمپ نے ایک لحاظ سے دنیا پر واضح کردیا ہے کہ  اس خطے میں ان کی کیا  سیاسی ترجیحات ہوں گی‘ وہ چین کے خلاف بھارت کی ہلہ شیری کرے گا جس طرح کہ تائیوان کی کر رہا ہے پاکستان کے ساتھ بھی وہ اپنے تعلقات صرف اسی صورت سدھارے گا اگر اس ملک کے ارباب بست و کشاد اس کی ڈگڈگی پر ناچنے کیلئے تیار ہوئے تو؟کیا کوئی بھی غیرت مند والد اس قسم کی آزادی برداشت کرے گا جسے وطن عزیز میں مادر پدر آزاد سوشل میڈیا پروان چڑھا رہا ہے‘لندن میں مقیم ایک بوڑھے پاکستانی کی آ دھی رات کے وقت جب آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اس کا 16 سالہ لڑکا ٹیلی ویژن پر ایک واہیات قسم کی فلم دیکھ رہا ہے اس نے اسے غصے میں آ کر ٹی وی بند کرنے کو کہا اور اسے ایک تھپڑمنہ پر رسید کرنا ہی چاہتا تھا کہ اس نے پولیس تھانے کو  فون کر دیا کہ میراباپ مجھے ہراساں کر رہاہے‘ دس منٹ کے بعد پولیس کے دو سپاہی اس کے گھر کے دروازے پر پہنچ گئے اور اسے وارننگ دے کر چلے گئے کہ اگر دوبارہ اس نے ایسا کیا تو وہ اس کے خلاف متعلقہ قانون کے تحت پرچہ کاٹ دیں گے اور اے گرفتار کر کے تھانے لے جائیں گے‘ وہ سفید ریش پاکستانی یہ وارننگ پی گیا‘ چند دنوں بعد اس نے اپنے اس بیٹے سے کہا کہ آؤ تم کو اپنے ملک کی سیر کر وا لاؤں کہ بہت عرصہ ہواہے ہم نے اپنا  وطن نہیں دیکھا‘ لندن سے رات کو اڑان بھرنے والی ایک فلائٹ میں وہ باپ بیٹا بیٹھے جو صبح تڑکے اسلام آباد لینڈکرتی ہے‘ وہ ائر پورٹ سے اسے سیدھا اسلام آباد کے جی نا ئن پارک لے گیا جہاں اکثر لوگ صبح صبح واک کیلئے آ تے ہیں۔ اس نے پارک پہنچ کر اپنی چھڑی سے اپنے بیٹے کو پیٹنا شروع کر دیا‘ اب وہ بیٹا آ گے آگے بھاگ رہا تھا اور باپ ہاتھ میں چھڑی لئے اس کے پیچھے پیچھے اور بلند آواز میں اسے کہہ رہا تھا جا بیٹا اب تم کسی تھانے میں میرے خلاف رپورٹ کر کے تو دکھاؤ‘ اس واقعہ کا ذکر  کرنے کا مقصدیہ ہے کہ سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کو اتنی کھلی چھٹی بھی نہیں دینی چاہیے کہ بڑے چھوٹے کی تمیز ختم ہوکر رہ جائے اور وہ چھوٹوں کو بد تمیزی کی طرف مائل کر دے اور نہ آزادی حقوق کی آ ڑ میں اتنی آزادی کا پرچار کیا جائے کہ جو ہمارے کلچر سے متصادم ہو۔

۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد چند تازہ ترین اہم عالمی اور قومی امور کا سرسری جائزہ بے جا نہ ہوگا۔واشنگٹن میں اگلے روز جو ہوائی حادثہ ہوا ہے اس نے امریکی حکومت کو ہلا کے رکھ دیا ہے‘ حالانکہ امریکہ کے تقریبا ًہر شہر میں ایک سے زیادہ ائر پورٹس ہیں پر تیزی سے بڑھتی ہوئی ائر ٹریفک کے پیش نظر وہ کم پڑنے لگے ہیں اور مزید ائر پورٹ بنانے کا مطالبہ زور پکڑنے لگا ہے‘ اب چونکہ ائر پورٹس کا ذکر چل ہی  پڑا ہے تو کیوں نا اس موضوع پر کچھ مزید بات ہو جائے‘ دنیا میں یوں تو امریکہ اور انگلستان کے مقابلے میں مشرق وسطی کے کئی ممالک خصوصاً عرب امارات میں کافی لمبے چوڑے ائر پورٹس موجود ہیں پر لندن کے ہیتھرو ائرپورٹ کو دنیا کا مصروف ترین ہوائی اڈہ تصور کیا جاتا ہے اب انگلستان میں بھی یہ مطالبہ زور پکڑ رہا ہے کہ اسے مزید لمبا اور چوڑا کیا جائے جب کہ اس کے اطراف میں رہنے والی آبادیوں کے لوگ اس تجویز کی اس وجہ سے مخالفت کر رہے ہیں کہ اس سے ان کے آرام کرنے کے وقت میں خلل پڑے گا۔