کبھی تاج و تخت، کبھی بدترین زوال، تاریخ دل کو چھو لینے والی ایسی بے شمار کہانیوں سے بھری ہے، یہ کہانی زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے ترسنے والی سلطنت مغلیہ کی وارثہ سلطانہ بیگم کی ہے۔
بہادر شاہ ظفر کی پڑپوتی سلطانہ بیگم عظیم الشان محل کے بجائے کولکتہ کی تنگ و تاریک گلی میں گمنامی اور مفلسی کی زندگی بسرکرنے پر مجبور ہے۔
ان کی شادی 1965 میں بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے مرزا بیدار بخت سے ہوئی، تب سلطانہ بیگم محض 14سال کی لڑکی، شوہر 46 سالہ ادھیڑ عمر تھے،1980 میں شوہر کے انتقال کے بعد شاہی خاندان کی یہ وارثہ دو وقت کی روٹی کی محتاج ہوگئی۔
سلطانہ بیگم کولکتہ کی خستہ حال بستی میں دو کمروں کے جھونپڑے میں رہتی ہیں جہاں کوئی بنیادی سہولت نہیں۔ حکومت سے انہیں6000 روپے ماہانہ پنشن ملتی ہے جوکہ زندہ رہنے کیلئے ناکافی ہے۔
کہانی سلطانہ بیگم کی نہیں، بلکہ تاریخ کے ایک المیے کی ہے۔ بہادر شاہ ظفر1857 کی جنگ آزادی میں باغیوں کے رہنما بنے، جسے برطانوی سامراج نے کچلنے کے بعد بہادر شاہ ظفر کو رنگون جلاوطن کر دیا، جہاں 1862 میں بے بسی میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
ان کی پڑپوتی کو اسی بے بسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا بھارتی حکومت سابق شاہی خاندان کی آخری وارثہ کو ان کا حق دے گی؟
یہ ایک فرد نہیں، اپنے دور کی سب سے طاقتور سلطنت کی درد بھری کہانی ہے، آج اس سلطنت کی وارثہ ایک گلی کے کونے میں بیٹھی انصاف کی منتظر ہے۔ کوئی ان کی سنے گا یا پھر یہ کہانی وقت کے دھندلکوں میں کھو جائے گی؟