چین کی نایاب معدنیات پر پابندیاں، امریکہ کی دفاعی صلاحیتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی

دنیا کی دو بڑی طاقتیں امریکہ اور چین ایک بار پھر آمنے سامنے ہیں، لیکن اس بار جنگ ہتھیاروں کی نہیں بلکہ ان قیمتی دھاتوں کی ہے جنہیں ریئر ارتھ ایلیمنٹس کہا جاتا ہے۔

چین نے حال ہی میں سات نایاب معدنیات اور میگنیٹس کی برآمد پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ یہ وہ اہم عناصر ہیں جو جدید دفاعی، توانائی اور گاڑیوں کی ٹیکنالوجی میں استعمال ہوتے ہیں۔ ان میں شامل ہیں سامیریم، گیڈولینیم، ٹربیم، ڈیسپروسیئم، لوٹیٹیم، اسکینڈیئم اور ایٹریئم۔

یہ معدنیات سننے میں تو پیچیدہ لگتے ہیں، لیکن ان کے بغیر لڑاکا طیارے، آبدوزیں، میزائل، ریڈار سسٹم اور ڈرونز مکمل نہیں ہو سکتے۔

واشنگٹن میں قائم سینٹر فار اسٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (CSIS) نے خبردار کیا ہے کہ اگر چین ان معدنیات کی برآمد روک دیتا ہے تو امریکہ کے پاس فوری طور پر اس خلا کو پُر کرنے کا کوئی متبادل نہیں ہوگا۔

فی الحال امریکہ میں ان ”ہیوی رئیر ارتھ ایلیمنٹس“ کی پراسیسنگ بالکل نہیں ہو رہی۔ اگرچہ کچھ فیکٹریاں زیرِ تعمیر ہیں اور ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس 2027 تک مکمل سپلائی چین بنانے کا ہدف رکھتا ہے، لیکن ماہرین کہتے ہیں کہ تب تک چین کئی قدم آگے جا چکا ہوگا۔

چین کی جانب سے ان معدنیات کی برآمد کے لیے اب خصوصی لائسنس درکار ہوں گے اور اس عمل میں کافی وقت لگ سکتا ہے۔ اس دوران امریکی کمپنیاں خاص طور پر دفاعی صنعت، سنگین قلت کا شکار ہو سکتی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ چین نے امریکہ کی 16 کمپنیوں کو اپنی ”ایکسپورٹ کنٹرول لسٹ“ میں بھی شامل کر دیا ہے جن میں زیادہ تر کا تعلق دفاع اور ایرو اسپیس سے ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ کمپنیاں اب چین سے وہ معدنیات نہیں خرید سکیں گی جنہیں دوہری استعمال کی اشیاء میں شمار کیا جاتا ہے۔

ادارے نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ یہ صورتحال نہ صرف امریکہ کی فوجی تیاریوں کو متاثر کرے گی بلکہ چین کے مقابلے میں اس کی دفاعی ٹیکنالوجی کی رفتار کو بھی سست کر دے گی۔

رپورٹ کے مطابق چین اس وقت جدید ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے میدان میں امریکہ سے پانچ سے چھ گنا تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ اور اگر یہ معدنیات مزید محدود ہو گئیں تو فرق اور بھی بڑھ جائے گا۔

دنیا کے دیگر ممالک جیسے آسٹریلیا اور برازیل بھی اس وقت اپنی نایاب معدنیات کی سپلائی چین کو بہتر بنانے میں لگے ہوئے ہیں، اور سی ایس آئی ایس کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ان کی بھرپور مالی اور سفارتی مدد کرنی چاہیے۔

دوسری جانب، چین کی یہ حکمتِ عملی دنیا بھر کے ممالک کو یہ سوچنے پر مجبور کر سکتی ہے کہ وہ اپنے مفادات کے لیے چین سے تعاون رکھیں تاکہ ان کی بھی سپلائی متاثر نہ ہو۔