سپریم کورٹ نے بانی پاکستان تحریک انصاف کے جسمانی ریمانڈ کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے دائر اپیلیں نمٹا دیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی گرفتاری کو ڈیڑھ سال کا عرصہ گزر چکا ہے، اب جسمانی ریمانڈ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
سماعت کے دوران جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ ”ہم چھوٹے صوبوں کے لوگ دل کے بڑے اور صاف ہوتے ہیں۔ ہم نے کچھ روز قبل ایک ایسا کیس سنا جس سے دل میں درد ہوا۔ ایک شخص آٹھ سال تک قتل کے الزام میں ڈیتھ سیل میں قید رہا اور پھر عدالت نے اسے باعزت بری کیا۔“
جسٹس ہاشم کاکڑ نے پنجاب حکومت کے وکیل سے سوال کیا: ”کیا آپ کبھی ڈیتھ سیل میں رہے ہیں؟“ اور مزید کہا کہ ”یہ وہ مقام ہے جہاں انسان زندہ ہوتے ہوئے بھی ہر لمحہ مر رہا ہوتا ہے۔“
عدالت نے قرار دیا کہ اگر پنجاب حکومت چاہے تو ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتی ہے، جبکہ ملزم کے وکلاء کو اپیل کی صورت میں اعتراض اٹھانے کا پورا قانونی حق حاصل ہے۔
پراسیکیوٹر کی جانب سے مؤقف اپنایا گیا کہ ملزم کے فوٹوگرامیٹک، پولی گرافک اور وائس میچنگ ٹیسٹ کرانے ہیں، تاہم عدالت نے واضح کیا کہ درخواست صرف جسمانی ریمانڈ سے متعلق تھی، ان ٹیسٹوں کی اجازت کے لیے نہیں۔
جسٹس صلاح الدین پنور نے ریمارکس دیے: ”کسی قتل یا زنا کے مقدمے میں ایسے ٹیسٹ نہیں کرائے جاتے، اور ہم توقع کرتے ہیں کہ حکومت عام آدمی کے مقدمات میں بھی اسی پھرتی اور جوش کا مظاہرہ کرے گی، جیسا کہ اس کیس میں کیا گیا۔“
عدالت نے پنجاب حکومت کی اپیلیں خارج کرتے ہوئے کہا کہ اب جسمانی ریمانڈ کا وقت گزر چکا ہے۔