اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی)کے مطابق 2024ء میں عالمی سطح پر فوجی اخراجات 2718 ارب ڈالر رہے جو امریکہ اور روس کے درمیان ہوئی سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سال بہ سال سب سے زیادہ اضافہ ہونے کے ساتھ خوفناک اضافے کی نشاندہی بھی کر رہا ہے۔ یقینی طور پر قومیں ہمیشہ تناؤ کا شکار عالمی کشمکش میں خود کو مسلح کرنے کی دوڑ میں مصروف رہتی ہیں۔امریکہ، چین، روس، جرمنی اور بھارت سب سے زیادہ فوجی اخراجات کرنے والے ممالک ہیں۔ مجموعی طور پر اِن سرفہرست پانچ ممالک نے ایک سال کے دوران اپنے دفاع پر 1635ارب ڈالر خرچ کئے جو عالمی فوجی اخراجات کا 60 فیصد بنتا ہے۔ ایس آئی پی آر آئی کے فوجی اخراجات اور اسلحے کی پیداوار کے پروگرام کے محقق ژیا لیانگ نے کہا کہ سال دوہزارچوبیس میں 100 سے زیادہ ممالک نے اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا۔ ممالک اپنے دفاع کو ترجیح دے رہے ہیں، دفاع کے علاوہ بھی دیگر اہم شعبوں پر اخراجات طویل مدتی معاشی اور معاشرتی نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اسرائیل نے اپنے دفاعی اخراجات میں 65 فیصد اضافہ کیا اس کے بعد روس نے 38 فیصد سویڈن نے 34 فیصد جرمنی نے 28 فیصد اور جاپان نے 21 فیصد اضافہ کیا۔ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ کو1.6 فیصد بڑھا کر 86.1ارب ڈالر کر دیا ہے اور دنیا کے پانچویں سب سے بڑے فوجی اخراجات کرنے والے ملک کی اپنی حیثیت برقرار رکھی ہے۔ واضح رہے کہ مالٹا کے علاوہ تمام یورپی ممالک نے 2024ء میں اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا۔ یورپی ممالک کے فوجی اخراجات سرد جنگ کے اختتام پر ریکارڈ کی گئی سطح سے تجاوز کر چکے ہیں۔سال 2024ء میں روس کے فوجی اخراجات کا تخمینہ 149ارب ڈالر تھا اور یہ رقم روس کی کل آمدنی (جی ڈی پی) کا 7.1 فیصد اور اس کے کل حکومتی اخراجات کا 19 فیصد ہے۔ یوکرین کے فوجی اخراجات بھی بڑھ کر 64.7ارب ڈالر ہو چکے ہیں جو اس کی کل قومی آمدنی (جی ڈی پی)کا 34 فیصد ہے اور یہ عالمی سطح پر سب سے زیادہ فوجی بوجھ ہے۔ حیرت انگیز طور پر یوکرین کی تمام ٹیکس آمدنی اس کے فوجی اخراجات پر خرچ ہو جاتی ہے۔ سال دوہزارچوبیس میں نیٹو تنظیم کے 31رکن ممالک نے مجموعی طور پر دفاع پر 1325 ارب ڈالر خرچ کئے جو عالمی فوجی اخراجات کا 48 فیصد بنتا ہے اور اس میں امریکہ نے تن تنہا 916 ارب ڈالر کا حصہ ڈالا۔ اقتصادی سست روی کے باوجود چین کے دفاعی اخراجات ایک سال میں چھ فیصد اضافے کے ساتھ 296 ارب ڈالر ہیں۔ چین کی قیادت واضح طور پر داخلی چیلنجوں سے نمٹنے کی بجائے اپنے دفاع کو ترجیح دے رہی ہے۔ دنیا معاشی ترقی کی سست روی اور شدید افراط زر جیسے دباء کی وجہ سے بحیرہ جنوبی چین میں جارحانہ صورتحال کا مشاہدہ کر رہی ہے۔بھارت کے دفاعی اخراجات جرمنی کے مساوی ہیں۔ سال دوہزارپندرہ سے دو ہزار چوبیس تک بھارت کے فوجی اخراجات میں بیالیس فیصد اضافہ ہوا ہے بھارت اپنی فوجی صلاحیت میں ہر سال اضافہ کر رہا ہے جس کی وجہ سے خطے میں جاری کشیدگی اور علاقائی سلامتی کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر پاکستان کے لئے، بھارت کے دفاعی اخراجات میں اضافہ خطرہ ہے۔ پاکستان کا دفاعی بجٹ 10 ارب ڈالر ہے جو بھارت کے دفاعی بجٹ سے آٹھ گنا کم ہے۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے (ایس آئی پی آر آئی) کے مطابق پاکستان کے دفاعی اخراجات 2023-24ء میں 5.1فیصد اور 2015-2024ء کے مقابلے میں 0.7ھفیصد کم ہوئے ہیں۔سال 2024 ء میں عالمی سطح پر فوجی اخراجات 2.7 کھرب(ٹریلین) ڈالر کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گئے، جو دفاعی بجٹ بڑھنے کا مسلسل دسواں سال ہے‘ دفاعی بجٹ بڑھانے کی وجہ تنازعات کی وجہ سے عسکریت پسندی میں اضافہ ہے۔ سال 2009 ء کے بعد پہلی بار پانچ جغرافیائی خطوں افریقہ، امریکہ، ایشیا اور اوقیانوسیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں فوجی اخراجات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔خطرے کی بات یہ ہے کہ دفاعی اخراجات سے متعلق مذکورہ رپورٹ میں فوجی مستقبل کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ پانچ طاقتوں کے درمیان دفاعی اخراجات کا ارتکاز، خاص طور پر جرمنی کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارت کا عروج، عالمی اور علاقائی عدم توازن کو بڑھا رہا ہے۔ یہ نتائج اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ دنیا میں تنازعات بڑھ رہے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
بھارت کو شرمناک شکست
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پانی پر جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاکستان اُور تجارتی جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ایمان،معافی اور مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
دریائے سندھ پر انحصار
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
بھارت جنگی جنون
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
آزاد تجارتی معاہدہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تغیرات اور اثرات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تعلیم و تربیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تجارتی جنگ:پاکستان کا مفاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام