پاکستان ترقی کی راہ میں واضح موڑ پر کھڑا ہے‘ ملک کی بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی معاشی اور سماجی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے تاہم اسکول سے باہر بچوں کی بڑی تعداد لمحہ فکریہ ہے جس کی وجہ سے خواندگی کے اہداف حاصل نہیں ہو پا رہے۔ پاکستان کے تعلیمی اعداد و شمار 2021-22ء کے مطابق تقریباً 2 کڑور 62لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے جو اسکول جانے والی عمر (پانچ سے سولہ سال) کی آبادی کا 39 فیصد ہے اور یہی وجہ ہے کہ شرح خواندگی کے حساب سے پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ پاکستان اکنامک سروے 2022-23ء کے مطابق خواندگی کی شرح 62.8 فیصد ہے جبکہ شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان یہ شرح غیر مساوی ہے۔ ادارہ برائے شماریات پاکستان کا کہنا ہے کہ پندرہ سے چوبیس سال کی عمر کے بے روزگار نوجوانوں کی شرح تقریباً 11.1 فیصد ہے جو تشویشناک صورتحال ہے۔چین اور بنگلہ دیش جیسے ممالک کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جائے تو ’بے روزگاری کے مسئلے‘ کو فوری طور پر حل کیا جا سکتا ہے کیونکہ اِن ممالک نے رسمی تعلیمی نظام کے ساتھ تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت (ٹی وی ای ٹی) کو شامل کیا۔ پاکستان کو دوہرے بوجھ کا سامنا ہے جس میں بہت سے بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں جبکہ داخلہ لینے والوں میں اکثریت انتہائی غربت کا شکار ہے اور چونکہ تعلیم کا معیار بھی غیر معیاری ہے اِس لئے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ ورلڈ بینک کے لرننگ پاورٹی انڈیکس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں دس سال کے 75 فیصد بچے سادہ متن کو پڑھ یا سمجھ نہیں سکتے جبکہ علاقائی طور پر کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 53 فیصد ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے بنیادی تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ چین نے ڈیجیٹل سلک روڈ منصوبے کے تحت خواندگی کو بہتر بنانے اور ڈیجیٹل معیشت کے لئے شہریوں کو تربیت دینے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ اس مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے، پاکستان کوڈنگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ وغیرہ جیسے آن لائن کورسز تک مفت یا رعایتی رسائی فراہم کرکے اپنی نوجوان آبادی کو ڈیجیٹل معیشت سے فائدہ اٹھانے میں مدد کرسکتا ہے۔ پاکستان میں خواتین کے لئے ہنرمندی کے
مواقع نمایاں طور پر کم ہیں۔ اقوام متحدہ کی خواتین کی رپورٹ 2023ء کے مطابق خواتین کی لیبر فورس میں شرکت کی شرح مردوں کے 84 فیصد کے مقابلے میں 26 فیصد ہے۔ گارمنٹس کے شعبے میں خواتین کی شراکت میں اضافہ کر کے بنگلہ دیش نے روزگار کے مواقعوں میں اضافہ کیا ہے اور بنگلہ دیش کی اِس کی کامیابی سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی لیبر فورس میں خواتین کی شرکت 42.68فیصد ہے۔ خواتین کے لئے پیشہ ورانہ تربیتی مراکز کے قیام، طالبات کو وظائف کی فراہمی اور مائیکرو فنانس اقدامات کے ذریعے خواتین کی انٹرپرینیورشپ کو فروغ دے کر، پاکستان جامع ترقی کو آگے بڑھا سکتا ہے اور چین و بنگلہ دیش کی طرح بہتر نتائج حاصل کرسکتا ہے تاہم، مہارت کی فراہمی کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کی طرف سے فنڈز کی کمی کو دیکھتے ہوئے، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ (پی پی پیز) ایک قابل عمل حل ثابت ہو سکتا ہے۔ چین کی کہاوت ہے کہ ”درخت لگانے کا بہترین وقت بیس سال پہلے تھا۔ اب دوسرا بہترین وقت ہے۔“ پاکستان کے لئے تعلیم و تربیت (ہنر مندی) کے مواقع فراہم کرنے کے لئے آج سے بہتر کوئی دوسرا وقت نہیں ہو سکتا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایم جہانگیر خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)