اپریل کے اوائل میں ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے اچانک بھاری محصولات نافذ کئے گئے اور اِسے ’یوم آزادی‘ قرار دیا گیا تاہم ان اقدامات کے پیچھے ٹھوس جواز تلاش کرنے والے حیران اور الجھن کا شکار ہیں کیونکہ محصولات کا جواز نہ صرف غیر مستقل ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو بالکل متضاد نظر آتا ہے۔ ایک طرف بتایا گیا ہے کہ محصولات امریکی مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے کے لئے کئے گئے تو دوسری طرف، انہیں ٹیکٹیکل لیورج کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ قلیل مدتی سودے بازی کی کوشش کا مقصد امریکی مصنوعات کے لئے اپنی منڈیاں کھولنے پر دنیا کو مجبور کرنا ہے۔ مؤخر الذکر کے مضمرات خاص طور پر پریشانی کا باعث ہیں‘ اگر مراعات حاصل کرنے پر محصولات ختم کئے جاتے ہیں تو امریکی مینوفیکچررز سوچ میں ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔ اس طرح کے تجارتی تناؤ کو تیزی سے حل کرنے کی ابتدائی امید پہلے ہی دم توڑنا رہی ہے۔ جاپان، جسے طویل عرصے سے واشنگٹن کے ساتھ فوری دوطرفہ معاہدے کا ممکنہ امیدوار سمجھا جاتا ہے، نے حال ہی میں مذاکرات کا ایک دور مکمل کیا جس میں کوئی معاہدہ ہوتا نظر نہیں آرہا۔ یہ خاص طور پر بتانے والا ہے کیونکہ امریکہ جاپان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ ہے، جو 2023ء میں جاپانی برآمدات کا تقریباً 20فیصد ہے، جس کی مالیت 143 ارب ڈالر بنتی ہے۔ جاپان کے چیف مذاکرات کار ریوسی آکازاوا خالی ہاتھ وطن واپس لوٹ گئے اور انہوں نے امریکی مؤقف کو ’انتہائی افسوسناک‘ قرار دیا۔ اگر جاپان سے مراعات حاصل کرنا مشکل ثابت ہوتا ہے تو بیجنگ سے بامعنی سمجھوتہ زیادہ مشکل ہوگا۔ چین کی درآمدات کو اب امریکی منڈیوں میں 145 فیصد ٹیرف کا سامنا ہے جبکہ امریکی مصنوعات کو چین میں داخل ہوتے وقت 125 فیصد محصولات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے معاشی انحصار کی عدم مساوات کو غلط سمجھا ہے۔ امریکہ چینی مصنوعات کا وسیع حصہ درآمد کرتا ہے۔ صارفین اور صنعتی دونوں کے متبادل یا تو دستیاب نہیں یا سپلائی چین کے لئے انتہائی رکاوٹ ہیں۔ چین بنیادی طور پر امریکہ سے زرعی اجناس درآمد کرتا ہے اور مصنوعات کو متبادل سپلائرز کے ذریعہ آسانی سے تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بوئنگ طیاروں کو ائربس کے طیاروں سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ بیجنگ امریکہ کی اعلیٰ ٹیکنالوجی کی برآمدات، خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز کا خواہاں ہے لیکن گزشتہ ٹرمپ انتظامیہ اور پھر بائیڈن کے دور حکومت میں وائٹ ہاؤس نے منظم طریقے سے پابندی عائد کی تھی جو جاری ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ چین کی جدت پر مبنی ترقی روکنے کے بجائے سیمی کنڈکٹر اور لیتھوگرافی آلات کی فروخت پر پابندی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ حالیہ مہینوں میں چین نے اسٹریٹجک شعبوں خاص طور پر الیکٹرک وہیکلز (ای وی) اور مصنوعی ذہانت میں نمایاں پیش رفت کی ہے۔ عالمی مصنوعی ذہانت کے اسٹیج پر ڈیپ سیک پلیٹ فارم کا اچانک ابھرنا اس بات کا صرف ایک اشارہ ہے کہ چین نہ صرف آگے بڑھ رہا ہے بلکہ وہ مصنوعی ذہانت میں دنیا کی قیادت بھی کر رہا ہے۔ یہ تیز رفتار تکنیکی ترقی ناقابل تنسیخ حقیقت کی نشاندہی ہے۔ تکنیکی پھیلاؤ لازمی طور پر قومی حدود سے تجاوز کئے ہوئے ہے۔ زمین کے نایاب عناصر کے علاقے سے کہیں بھی اسٹریٹجک دور اندیشی کا فقدان زیادہ واضح نہیں ہے۔ یہ سترہ کیمیائی طور پر ملتی جلتی دھاتیں ای وی موٹرز اور جیٹ انجنوں سے لے کر فوجی گریڈ کے ہتھیاروں تک ہر چیز کی پیداوار میں ناگزیر ہیں۔ ان کی کان کنی اور ریفائننگ پر چین کی اجارہ داری ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق، چین نایاب عناصر کی پیداوار کا تقریباً 61فیصد اور پروسیسنگ میں حیرت انگیز طور پر 92فیصد حصہ رکھتا ہے۔ چین کا یہ غلبہ امریکی صنعتی اور دفاعی شعبوں کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ بڑے پیمانے پر وہی غلطیاں دہرا رہی ہے جو اِس سے قبل کی انتظامیہ نے کی تھیں۔ امریکہ کی نئی تجارتی و کاروباری پالیسیوں پر وال مارٹ اور ٹارگیٹ جیسی ریٹیل کمپنیوں نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ ٹیرف میں جاری تعطل مصنوعات کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے جس کا خمیازہ بالآخر امریکی صارفین کو بھگتنا پڑے گا۔ پاکستان جیسے ممالک کے لئے یہ عالمی تجارتی جنگ بالواسطہ نتیجہ خیز مضمرات رکھتی ہے۔ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈی ہے، جو کل برآمدات کا 17فیصد یعنی 5.5ارب ڈالر ہے جبکہ درآمدات 2.1 ارب ڈالر ہیں۔ 3.4 ارب ڈالر کا یہ تجارتی سرپلس، جو کسی بھی ملک کے مقابلے بڑا تجارتی سرپلس ہے، اپنی ذات میں موقع اور خطرہ دونوں لئے ہوئے ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ محصولات کا ذکر شہ سرخیوں میں ہو سکتا ہے اور اِس سے عوامی جذبات کو بھی بھڑکایا جا سکتا ہے لیکن یہ اسٹریٹجک اقتصادی پالیسی کا متبادل نہیں ہو سکتے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر آئی حسین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
امریکی امداد کی بندش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
پاکستان اُور تجارتی جنگ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت میں اضافہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
یورپ: غیریقینی کی صورتحال
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت اُور ترجیحات ِحکمرانی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
خطرناک ہتھیار
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جنوب ایشیا قلت اور جغرافیائی سیاست
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
آزاد تجارتی معاہدہ
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
تجارتی محصولات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کیا ٹرمپ ماضی سے سبق سیکھیں گے؟
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام