1995ء میں شروع ہونے والے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کا مقصد عالمی تجارت کے لئے مستحکم، شفاف اور اصولوں پر مبنی فریم ورک تشکیل دینا تھا، جس کے تحت قانونی طور پر پابند اور غیر جانبدار تنازعات کے تصفیے کا انتظام ہو تاہم چار سال کے اندر، گلوبل ساؤتھ اور گلوبل نارتھ سے حقوق پر مبنی سول سوسائٹی کے اتحاد اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی تحریکوں کا ماننا تھا ڈبلیو ٹی او کا تجارتی لبرلائزیشن ایجنڈا مزدوروں کے حقوق اور ماحولیاتی معیارات ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے مفاد میں ہیں۔ 1999ء میں امریکی شہر ’سیئٹل‘ کی سڑکوں پر ”ڈبلیو ٹی او“ کی مخالفت“ میں مظاہرے ہوئے جس میں حصہ لینے والے مزدوروں نے نعرے لگائے کہ وہ جانور نہیں انسان ہیں اور وہ قابل فروخت بھی نہیں ہیں۔ مظاہرے میں کارپوریٹ گلوبلائزیشن بند کرو کے نعرے بھی لگائے گئے۔ ہزاروں مظاہرین نے ڈبلیو ٹی او کی تیسری وزارتی کانفرنس میں خلل ڈالا اور ایک نئے تجارتی دور کے آغاز کو روکا۔ سال دوہزاراکیس میں، ڈبلیو ٹی او نے قطر میں اپنا چوتھا وزارتی اجلاس طلب کیا۔ دوحہ کے ایجنڈے میں زرعی تجارت کو کافی حد تک آزاد بنانا اور کاشتکاری کی سبسڈی میں کٹوتی شامل تھی اور خدشہ تھا کہ ملٹی نیشنل ایگری کارپوریشنز خاص طور پر امریکی کمپنیاں ترقی پذیر ممالک میں چھوٹے کسانوں کو تباہ کردیں گی۔ زراعت میں تجارتی لبرلائزیشن کے لئے امریکی
دباؤ کے خلاف منصوبہ بندی کی گئی تھی۔ ایسے پوسٹرز بنائے گئے جن میں انکل سام کو ایک آکٹوپس کے طور پر دکھایا گیا جو غریب کسانوں کو کچل رہا ہے اور دیسی بیج کی اقسام چھین رہا ہے۔ نیو لبرل ایجنڈے کا خوف اور ڈبلیو ٹی او مخالف تناؤ 2003ء میں ڈبلیو ٹی او کی پانچویں وزارتی کانفرنس کے دوران المناک عروج پر پہنچا۔ جنوبی کوریا کے لی کیونگ ہائے نامی ایک کسان نے باڑ پر چڑھ کر خود کو چاقو مار کر ہلاک کر لیا۔ ان کی خودکشی نے دنیا بھر کے کسانوں کی شدید پریشانی کو اجاگر کیا جو ڈبلیو ٹی او طرز کی لبرلائزیشن کو اپنے وجود کے لئے خطرہ سمجھتے تھے۔ کانفرنس کے دوران ان کا علامتی تابوت رکھا گیا اور ”فری ٹریڈ کسانوں کی موت“ اور ”ڈبلیو ٹی او قاتل ہے“ کے نعرے لگائے گئے۔ سال 2001ء میں ڈبلیو ٹی او میں چین کی شمولیت نے عالمی تجارتی نظام کی تبدیلی کی معاشی صلاحیت کو اجاگر کیا۔ ڈبلیو ٹی او کی رکنیت نے چین کو کم ٹیرف کی صورت فائدہ دیا اور برآمدی منڈیوں میں وسیع پیمانے پر توسیع کی، جس سے غیر معمولی ترقی کو فروغ ملا۔ دو دہائیوں میں چین ایک عالمی اقتصادی طاقت بن کر ابھرا اور برآمدات پر مبنی صنعت کاری کے ذریعے کروڑوں افراد کو غربت سے باہر نکالا اور عالمی تجارت کو بنیادی طور پر نئی شکل دی۔ چین کا معاشی معجزہ گلوبلائزیشن کے وعدوں اور نقصانات کے ساتھ اس سے پیدا ہونے والے مختلف نتائج کو بھی اجاگر کرتا ہے اور یہ ڈبلیو ٹی او کی کامیابی کے لئے بھی یکساں اہم ہے۔ اس کا تنازعات کے تصفیے کا طریقہ کار تھا جو تجارتی تنازعات کو حل کرنے کے لئے غیر جانبدار فورم ہے۔ ترقی پذیر ممالک نے اس قانونی نظام کو زیادہ طاقتور ممالک کے خلاف اپنے مفادات کے دفاع کے لئے استعمال کرنا سیکھا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے 1999ء میں کاٹن یارن پر امریکی کوٹے کو چیلنج کیا جس کی وجہ سے واشنگٹن نے اسلام آباد کے حق میں ڈبلیو ٹی او کے فیصلے کے بعد ان پابندیوں کو ہٹا دیا تھا۔ اسی طرح 2014ء میں پاکستان نے یورپی یونین کی جانب سے پولی تھین ٹیریفتھالیٹ (پی ای ٹی) پر محصولات کے خلاف مقدمہ جیت کر اس کے برآمد کنندگان کو کروڑوں یورو کی بچت کی تھی۔ اس وقت تک ڈبلیو ٹی او کے نظام میں چھوٹی معیشتوں کے لئے یکساں مواقع موجود تھے تاہم اس قانونی ستون کو ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر پہلی مدت کے دوران جان بوجھ کر کمزور کیا گیا۔ ان کی انتظامیہ نے منظم طریقے سے 2017ء میں ڈبلیو ٹی او کی اپیلٹ باڈی میں تقرریوں کو روک
دیا جس سے ادارہ دسمبر 2019ء تک اپیلوں کی سماعت کے لئے ضروری کم از کم تین ممبروں سے محروم رہا۔ اس اقدام نے ڈبلیو ٹی او کی اپنے قوانین کو نافذ کرنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیا اور قواعد پر مبنی تجارتی نظام سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ ٹرمپ کی دلیل یہ تھی کہ ڈبلیو ٹی او نے غیر منصفانہ طور پر امریکی خودمختاری کو محدود کیا ہے اور دیگر ممالک کی طرف سے تجارتی خلاف ورزیوں کو مناسب طریقے سے حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ جارحانہ محصولات کے اقدامات نے نادانستہ طور پر ڈبلیو ٹی او کی اہمیت کو بحال کر دیا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں (سوائے چین کے‘ جو کھلے عام اس کی مذمت کر رہی ہیں) بھی محتاط انداز میں واشنگٹن کی تجارتی غنڈہ گردی کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کر رہی ہیں۔ بہت کم لوگوں نے کثیر الجہتی نظام کو مضبوط کرنے کے لئے سیاسی عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔ بین الاقوامی برادری اس بارے میں واضح ہے کہ وہ کس کے خلاف کھڑی ہے لیکن اس کے بارے میں مبہم ہے کہ اس کا کیا مطلب ہے۔ جب تک نظریاتی الجھن برقرار رہے گی، عالمی معیشت خطرناک جمود میں پھنسی رہے گی اور تحفظ پسندی اور طاقت کی سیاست سے تجارت میں شفافیت اور پیش گوئی یقینی بنانے کے قابل واحد ادارے (ڈبلیو ٹی او) کی بحالی اور اصلاح کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں کی جائے گی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن امام)