تجارتی محصولات

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حال ہی میں عائد کئے گئے تجارتی محصولات نے عالمی سٹاک مارکیٹوں میں خوف و ہراس پیدا کر رکھا ہے اور عالمی قیادت کو مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر …… کچھ دو‘ کچھ لو …… کی بنیاد پر معاہدے کرنے پر مجبور کیا ہے اگرچہ امریکہ دنیا کو ہتھیار، جنگی طیارے اور دفاعی پیداوار برآمد کرنے کے لئے مشہور ہے لیکن اس کی معیشت بنیادی طور پر انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبے میں خدمات (سروسز) پر مبنی ہے تاہم حالیہ برسوں میں دیگر کھلاڑی بھی امریکہ میں مقابلہ کرنے کی دوڑ میں پیش پیش ہیں۔ خاص طور پر چین امریکہ کو ہر محاذ پر ”ٹف ٹائم“ دے رہا ہے۔ صدر ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکی مارکیٹ 30 کروڑ سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے اور یہ تعداد اپنی روزمرہ استعمال کے لئے دیگر ممالک کی مصنوعات کو ترجیح دیتے ہیں۔ بہت سی سستی چینی مصنوعات امریکیوں کو ان کے معیار زندگی بہتر بنانے میں مدد کر رہی ہیں لیکن اس کے نتیجے میں امریکہ کو تجارتی خسارہ درپیش ہے۔ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران ”امریکہ فرسٹ“ اور ”امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے“ کا جو انتخابی وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کے لئے وہ اپنے ملک کو تجارتی خسارے سے نکالنے کے لئے سخت اقدامات کر رہے ہیں۔ حال ہی میں نافذ کئے گئے محصولات اِسی سلسلے کی کڑی ہیں۔ بلاشبہ غیر ملکی مصنوعات پر نئے محصولات عائد کرنے سے افراط زر (مہنگائی کی شرح) میں اضافہ ہوگا لیکن غیر ملکی اجارہ داری کے خاتمے سے بالآخر امریکہ کی مقامی صنعت کو پھلنے پھولنے میں مدد ملے گی۔ ٹرمپ کے مطابق امریکہ نئے متعارف کرائے گئے تجارتی محصولات سے یومیہ 2 ارب ڈالر کما رہا ہے جبکہ اس دہائی تک قومی خزانے میں تقریبا 2.3 کھرب ڈالر جمع ہونے کی توقع ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، کینیڈا، بھارت، آسٹریلیا اور یورپی یونین سمیت کئی دیگر ممالک بھی امریکہ کی جانب سے عائد کردہ محصولات سے متاثر ہوئے ہیں تاہم اِن محصولات کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔بھارت کو بھی کچھ عرصہ قبل اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وزیر اعظم منموہن سنگھ نے آئی ایم ایف اور بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کی گرفت سے نکلنے کے لئے قومی مفاد میں سخت فیصلے کئے تھے۔ بھارت نے سفارتی اور سرحدی محاذوں پر تناؤ کے باوجود چین کے ساتھ دوطرفہ تجارتی تعلقات قائم کئے۔ آج چینی کمپنی بی وائی ڈی کے اشتراک سے عالمی شہرت یافتہ امریکی ٹیسلا کا مقابلہ کرنے والی الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار بھارتی شہر حیدرآباد میں کی جا رہی ہے اگرچہ ہم پاک چین دوستی کے علمبردار ہیں لیکن چین کو پاکستان سے برآمدات بہت کم ہیں اور یہاں تک کہ ہمارا قومی پرچم بھی چین سے درآمد کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے، ہم ابھی تک چین کو اپنے ملک میں کوئی قابل ذکر بڑی صنعت قائم کرنے کے لئے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی پیداوار ہماری قومی معیشت کے استحکام کا باعث بنے۔ صدر ٹرمپ کے حالیہ سخت فیصلوں کو یقینا بڑے پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن ایک رائے یہ بھی ہے اِس سے امریکہ کی عالمی معاشی بالادستی کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی اور وہ مسابقت حاصل کریں گے۔ چین اس وقت امریکہ پر جوابی محصولات عائد کر رہا ہے لیکن بہت جلد چین کو بھی مذاکرات کی میز پر بیٹھنا پڑے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ٹرمپ کی قیادت میں ایک نئے عالمی نظام کا نکتہئ آغاز ثابت ہوگا آج پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک کے پاس سنہری موقع ہے کہ وہ ٹیرف (محصولات) کے معاملے پر امریکہ سے معاہدے پر دستخط کرکے دوطرفہ تعلقات مضبوط بنائے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر‘ ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 پاکستان ایک اہم برآمد کنندہ ملک ہے لیکن اِس نے ماضی میں افغانستان کے مسئلے سمیت مختلف معاملات میں اپنی جغرافیائی پوزیشن سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔ موجودہ صورتحال کا تقاضا ہے کہ ماضی سے سبق سیکھا جائے اور پریشانی کی وجہ سے جلد بازی میں کوئی قدم نہیں اٹھانا چاہئے۔ وسیع تر مفاد اِسی میں ہے کہ ٹرمپ کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا جائے۔