پانی کا ایک اور عالمی دن گزر گیا جب نئے وعدے سننے میں آئے لیکن اگر موجودہ صورتحال کا سال گزشتہ سے موازنہ کیا جائے تو پچھلے کئی سالوں سے پیش رفت دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ طاقتور سندھ سے مالا مال پاکستان اس وقت پانی کے شدید بحران کی زد میں ہے۔ ملک تیزی سے پانی کی قلت کی زد میں ہے اور ملک کے کئی حصے پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ایسے علاقے بھی ہیں کہ جہاں صاف پانی تک رسائی مسئلہ بنی ہوئی ہے کیونکہ دریا خشک ہو رہے ہیں اور ویٹ لینڈز جو کبھی پانی کے قدرتی ریگولیٹر تھے رفتہ رفتہ غائب ہو رہے ہیں۔پانی نہ صرف پاکستان کا معاشی اثاثہ ہے بلکہ یہ بے پناہ ثقافتی جمالیاتی تفریحی اور تعلیمی اقدار بھی رکھتا ہے تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ پانی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کو روزانہ ایک اعشاریہ ایک ارب گیلن پانی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اسے 550 ملین گیلن سے بھی کم پانی ملتا ہے جو طلب کے نصف سے کم ہے۔ اسی طرح اسلام آباد کو روزانہ 220 ملین گیلن پانی کی ضرورت ہے لیکن اِسے صرف تیس سے پینتییس فیصد پانی ملتا ہے۔ اس کمی نے واٹر ٹینکر مافیا کے نیٹ ورکس کو ترقی دی ہے جو اِس تقسیم کو کنٹرول کر رہے ہیں اور آئے روز پانی کی قیمت میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ پانی تک رسائی کو بنیادی حق کے بجائے ایک استحقاق میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں میں زیر زمین پانی کا زیادہ استعمال بھی اہم مسئلہ ہے۔ غیر منظم بور ویلوں کی وجہ سے زیر زمین آبی ذخائر کی تیزی سے کمی آ رہی ہے۔پاکستان میں پانی کا بحران وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور منصوبہ بندی میں پائی جانے والی خرابیوں کی نشاندہی کر رہی ہے۔ دریائے چناب اور جہلم پر بھارتی ہائیڈرو پراجیکٹس پر کشیدگی بڑھ گئی ہے جس سے ہماری آبی سلامتی خطرے کا شکار ہے۔ اس کیساتھ 1991 کے آبی معاہدے پر سندھ و پنجاب کے درمیان بین الصوبائی تنازعات ابھرے ہیں۔ سندھ پنجاب پر الزام عائد کر رہا ہے کہ یہ سندھ کے پانی کا تصرف کر رہا ہے جبکہ بلوچستان کے کسانوں کا دعوی ہے کہ سندھ ان کیلئے پانی کے جائز حصے کو روک رہا ہے۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ صوبے کے شمالی اضلاع میں بڑے زرعی علاقوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے آبی وسائل کا رخ موڑا جا رہا ہے۔ برسوں سے شہری توسیع، آبادی میں اضافہ اور پانی کی کھپت میں اضافے نے کم آمدنی والی برادریوں کو غیر متناسب طور پر متاثر کیا ہے۔پاکستان میں تقریباً 225 ویٹ لینڈز ہیں، جن میں سے 19 کو رام سر سائٹس کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ کسی زمانے میں حیاتیاتی تنوع‘ معاش اور ثقافتی ورثے سے مالا مال ماحولیاتی نظام جیسا کہ منچھر جھیل، ہلیجی جھیل اور انڈس ڈیلٹا وغیرہ آلودگی، تجاوزات اور بدانتظامی کی وجہ سے ناکارہ ہو چکے ہیں۔دنیا کے سب سے بڑے دریائی ڈیلٹا میں سے ایک انڈس ڈیلٹا ہے۔ جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی منچھر جھیل ماحولیاتی تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے جس کی وجہ سے مقامی آبادیوں کو نقل مکانی کرنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ملک کی نوے فیصد زرعی پیداوار کا انحصار انڈس بیسن آبپاشی کے نظام پر ہے، قومی غذائی تحفظ براہء راست دریائے سندھ (بیسن) میں پانی کی سطح سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ آبی علاقوں اور دریائے سندھ کی تباہی صرف ماحولیاتی بحران نہیں بلکہ بقا کا بحران ہے۔ پانی کی غیر ذمہ دارانہ کھپت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان سالانہ تقریبا دو ارب مکعب میٹر گندا پانی پیدا کرتا ہے لیکن اس میں سے صرف ایک فیصد پانی صاف (ٹریٹ)کیا جاتا ہے باقی میٹھے پانی کو آلودہ ہی رہنے دیا جاتا ہے اگرچہ ملک میں پینے کے پانی کی فراہمی کا نظام 92 فیصد آبادی کا احاطہ کرتا ہے لیکن فراہم کردہ پانی کا صرف 36 فیصد استعمال کے لئے محفوظ سمجھا جاتا ہے‘ وافر مقدار میں پانی ملنے کے باوجود پاکستان کا زیادہ تر حصہ پانی کا بڑا حصہ ضائع کر رہا ہے۔ مون سون کی شدید بارشوں کے نتیجے میں دریاں میں تباہ کن سیلاب آتا ہے، جو برفانی تودوں (گلیشیئرز) پگھلنے سے آنیوالی پہاڑی لہروں کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے۔ ملک اب بھی 2022 کے تباہ کن سیلاب سے نمٹ رہا ہے اور رواں سال، ممکنہ طور پر زیادہ بڑے پیمانے پر مون سون کا ایک اور سلسلہ متوقع ہے۔ پھر بھی اس اضافی پانی کا زیادہ تر حصہ ذخیرہ کرنے کے لئے ناکافی ڈھانچے کی وجہ سے اِس پانی کا بڑا حصہ ضائع ہو جائے گا۔ پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش صرف تیس دن تک محدود ہے جو کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ملک کے لئے ایک ہزار دن کے مساوی ہونا چاہئے یعنی پاکستان کو اپنے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرنا چاہئے۔ مساوی تقسیم کو یقینی بنانے، پانی کی چوری روکنے اور غیر قانونی تصرف کو روکنے کے لئے واٹر گورننس کو مضبوط بنانا وقت کی ضرورت ہے تاہم، صرف پالیسی اصلاحات کافی نہیں ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سمیتا فائق۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
طرز عمل میں تبدیلی اور پانی کی محتاط کھپت سے متعلق رویئے اور اجتماعی تبدیلی پائیداری کا اہم محرک ثابت ہو سکتے ہیں۔ پانی کے منصفانہ استعمال پر زور دیتے ہوئے قومی، صوبائی اور مقامی موافقت کے منصوبوں کو تحفظ کے لئے کمیونٹی پر مبنی نکتہء نظر مربوط کرنا ہوگا۔ پانی کے گردشی منصوبوں اور فطرت پر مبنی حل میں سرمایہ کاری کو ترجیح دینے سے صورتحال بہتر ہوسکتی ہے، پانی کی دستیابی اور ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے اور ماحولیاتی توازن کو بحال کیا جاسکتا ہے۔ریچارج پاکستان ایک ایسا فلیگ شپ اقدام ہے جس کا مقصد واٹر شیڈ مینجمنٹ، ماحولیاتی نظام پر مبنی مطابقت اور گرین انفراسٹرکچر کے ذریعے زیر زمین پانی کو 1600 ملین لیٹر تک بھرنا اور پانی کے ذخیرے میں 20 ملین مکعب میٹر تک اضافہ کرنا ہے۔