معلومات کج جنگ

حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی نے خطرناک رخ اختیار کر لیا جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر سرحد پار سے میزائل اور ڈرون حملوں کے الزامات لگائے۔ اس کشمکش میں سب سے پہلا نقصان سچائی کا ہوا بعد میں امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی پر اتفاق ہوا، جو کہ ایک مثبت قدم ہے لیکن اگرچہ اس وقت بندوقیں خاموش ہیں مگر ایک اور جنگ زوروں پر ہے اور وہ ہے ”سچائی کی جنگ۔“ آج جنگ صرف میدانوں میں نہیں ہوتی بلکہ خبروں، سوشل میڈیا، ویڈیوز اور جھوٹی معلومات کے ذریعے بھی لڑی جاتی ہے۔ اس جنگ کے ہتھیار نہ ٹینک ہیں، نہ ہی طیارے بلکہ گمراہ کن ٹویٹس، ایڈیٹ کی گئی ویڈیوز، اور جھوٹے انفوگرافکس ہیں۔ دس مئی کو برطانوی اخبار ”دی ٹیلی گراف“ کے صحافی سمان لطیف نے ایک سرخی شائع کی ”بھارت نے پاکستان پر حملے کے لئے جنگی جہاز بھیجے ہیں۔“ یہ خبر بھارت سے نہیں بلکہ لندن (برطانیہ) سے شائع ہوئی تھی مگر اس نے پاکستان میں شدید غصے کو جنم دیا۔ جب دونوں ممالک پہلے ہی تناؤ میں تھے، اس طرح کی غیر ذمہ دار سرخی نے حالات کو مزید بگاڑ دیا۔ بعد میں اخبار نے سرخی میں تبدیلی کی، جو اس بات کا اشارہ تھا کہ یہ ایک غلطی تھی اور یہ صرف ایڈیٹنگ (تدوین) کی غلطی نہیں تھی بلکہ ایسی صحافت ہے جو خطے کے امن کے لئے خطرہ بن سکتی ہے۔ مذکورہ خبر سوشل میڈیا پر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ واٹس ایپ گروپس میں خوف و ہراس پھیل گیا، سیاسی رہنماؤں نے سخت بیانات دیئے اور ٹی وی چینلز نے اسے نمایاں کوریج دی۔ یہ ایسی چنگاریاں ہوتی ہیں جو پورے خطے کو آگ لگا سکتی ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں قوم پرستی اب سوشل میڈیا کے ”ایکو چیمبرز“ تک جا پہنچی ہے۔ یہاں صرف وہی خیالات سنے جاتے ہیں جو خاص سوچ سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اختلاف رکھنے والوں کو غدار کہا جاتا ہے۔ ایسے میں صرف تحمل کافی نہیں، 
معلوماتی نظم و ضبط بھی ضروری ہے۔ ہر فرد کی ذمہ داری ہے کہ شیئر کرنے سے پہلے سوچے اور یقین کرنے سے پہلے تصدیق کرے۔ پھر بھی، امید کا دامن چھوڑنا نہیں چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت دونوں کو معیشت، سلامتی اور استحکام کی ضرورت ہے۔ جوہری ہتھیار رکھنے والے ان دو ممالک کے درمیان توازن کو ”ڈیٹرنس“ یعنی باہمی تباہی کے خوف نے قائم رکھا ہے۔ اس صورتحال میں اقوام متحدہ اپنی محدود حیثیت کی وجہ سے زیادہ مؤثر نہیں رہی لیکن امریکہ کی ثالثی اہم کردار بن کر سامنے آئی ہے۔ سعودی عرب اور دیگر ملک بھی ”بیک چینل“ یعنی خفیہ سفارتکاری کے ذریعے مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جنوبی ایشیا مزید کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ یہ وہ خطہ ہے جو ماحولیاتی بحران، غربت، بیماریوں اور پانی کی قلت جیسے مسائل سے پہلے ہی نبرد آزما ہے۔ آج سب سے اہم جنگ وہ ہے جو سچائی کے لئے لڑی جا رہی ہے۔ افواہیں، جھوٹ اور تعصب اس خطے کو مزید خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں ان کا مقابلہ سچ، تحقیق اور عقل سے کرنا ہوگا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ایرک شازر۔ ترجمہ ابوالحسن امام)