بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کردہ جنگ کس نے جیتی؟ ایسے بہت سے سوالات میں الجھی ہماری توجہ نے جنگ کی وجہ سے انسانوں کے مسائل کو دھندلا کر دیا ہے۔ میڈیا کے ہنگامے میں موت صرف اعداد و شمار بن گئی ہے۔ پہلگام میں چار پراسرار افراد کے ہاتھوں مارے گئے بے گناہوں کا تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ اپنی جان قربان کرنے والے محافظوں کا ذکر بھی محض سرخیوں میں محدود رہ گیا ہے۔ ان کے پیچھے رہ جانے والی مائیں، بیوائیں، اور بچے، سب کہانی سے غائب ہیں۔ خدیجہ کو اپنے شوہر عثمان کا صبح گیارہ بجے کے قریب فون آیا۔ آواز میں تھکن جھلک رہی تھی۔ میں تقریباً ختم ہو چکا ہوں۔ دوپہر کے کھانے پر واپس آؤں گا تو فلو کی دوا لے لوں گا۔ معمول کی تھکن کے باوجود، عثمان رات کو دوستوں کے ساتھ کھانے پر گیا۔ وہ لمحہ موجود میں جینے والا شخص تھا، جسے کل کی فکر نہیں ہوتی تھی۔ وہ مادی فائدے کی بجائے جذبات سے رہنمائی لیتا تھا۔ کچھ دن پہلے، عثمان نے خدیجہ
سے کہا تھا ہائی الرٹ سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ دوست سے ضرور مل آؤ۔ وہ جانتا تھا کہ دو چھوٹی بیٹیوں کی پرورش میں خدیجہ تھک چکی ہے۔ اس نے اپنی بیوی کو مشورہ دیا کہ وہ اب اپنے کیریئر پر توجہ دے کیونکہ بڑی بیٹی پانچ سال کی ہو چکی ہے۔ ”تمہیں اپنی بیٹیوں کے لئے رول ماڈل بننا ہوگا“ اس نے نرمی سے کہا تھا اور وہ واقعی ہیرو تھا۔ اس کے جیسا کوئی نہیں تھا۔ کل ہی، عزا نے اپنے چچا تیمور سے پوچھا ”آپ پاپا کی طرح گاڑی کیوں نہیں پارک کر سکتے؟“ تیمور نے بمشکل مسکراہٹ سنبھالی۔ عثمان، تیمور سے صرف ایک سال چھوٹا تھا، لیکن ہمیشہ بچپن کی شرارتوں میں اس کا ساتھی رہا۔ عثمان یوسف کو بھلانا واقعی ممکن نہیں۔ اسکواڈرن لیڈر کے طور پر، وہ نہ صرف اپنی ٹیم کا سربراہ تھا بلکہ ان کا خیرخواہ بھی۔ اگر کسی کو گھر میں پریشانی ہوتی، تو عثمان اسے محسوس کر لیتا۔ کسی کے والدین کی طبیعت خراب ہو یا بیوی سے جھگڑا، وہ ہمیشہ ساتھ کھڑا ہوتا۔ ماتحتوں کی فکر، وطن کی محبت، اور فرض کی ادائیگی، اُسے عزیز تھی۔ عثمان کی ماں، ایک سابقہ اسکول ٹیچر، نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ عثمان میرے بھتیجے کی عمر کا تھا۔ جب میں ان کے محلے پہنچی تو ہر گلی، ہر دکان، ہر در و دیوار سے واقفیت کا احساس ہوا۔ چکن کارن سوپ کا وہی اسٹال، وہی کیک شاپ، وہی اسٹیشنری۔ وہی محلہ، وہی بچپن کے مناظر۔ یہ صرف جغرافیہ نہیں تھا جو مجھے ان سے جوڑتا تھا بلکہ ہماری ایک جیسی حقیقتیں تھیں۔ جنگ نے مجھے اور عثمان کی ماں کو ایک ساتھ لا کھڑا کیا۔ ہم شاید پہلے کبھی نہ ملتے، لیکن اب ایک ماں دوسری سے سوال کر رہی تھی ”تمہیں کیا لگتا ہے، عثمان کس اعزاز کا مستحق ہے؟“ میں نے کہا ”ملک کا سب سے بڑا اعزاز۔“ مگر رات کو جب میں خاموشی سے دعا مانگ رہی تھی، تو دل میں ایک اور خیال آیا: کیا تمغے اور اعزاز ان بیواؤں اور یتیموں کے درد کا مداوا ہو سکتے ہیں؟ شاید سب سے بڑا اعزاز وہ عزت ہے، وہ قدر، جو قوم ان قربانیوں کو سچے دل سے دے۔ ایک ایسا معاشرہ جو اپنے شہیدوں کو یاد رکھے، جو اپنے شہیدوں کو عزت دے‘ جو محض تصویریں چھاپنے سے آگے بڑھ کر ان کی زندگی کا حصہ بنے۔ عثمان کی شہادت پوری قوم کے لئے فخر ہے اور اپنے اندر اُس سے وابستہ خاندان کے لئے سانحہ بھی ہے، لیکن صرف وہی نہیں۔ ہر ایک سپاہی، جو وطن کے نام پر قربان ہوتا ہے ہمیشہ کے لئے زندہ (امر) ہو جاتا ہے۔ امن کی اُمید اور دعا کے ساتھ سوال یہ نہیں کہ جنگ کس نے جیتی بلکہ سوال یہ ہونا چاہئے کہ ہم نے کتنے پیاروں کو کھو دیا‘ اور مسلط کردہ جنگ سے کیا سیکھا؟ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ریحام خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)