ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک آج کی دنیا میں اقتصادی ترقی کے محور پر کھڑے ہیں۔ تجارت، سرمایہ کاری اور صنعتی پیش رفت نے ان خطوں کو عالمی معیشت میں کلیدی حیثیت دی ہے لیکن ایک بنیادی خامی ان کی ترقی کی رفتار کو روکے ہوئے ہے اور وہ ناکافی اور غیر متوازن نقل و حمل کا نظام ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ الگ سے پریشان کن ہے کہ اگرچہ یہ خطہ عالمی تجارت میں سرگرم ہے، لیکن زمینی و فضائی رابطے‘ سڑکیں، ریلوے، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے‘ ان کی اقتصادی ضروریات سے بہت کم ہیں تقریباً 1.8 ارب لوگ آج بھی قابلِ بھروسہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک سے محروم ہیں۔ یہ صرف ایک عددی کمی نہیں بلکہ سماجی و معاشی ترقی کے راستے میں کھڑی رکاوٹ (دیوار) بھی ہے۔بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات تک عدم رسائی اپنی جگہ سنگین مسئلہ ہے مگر جب نقل و حمل کا نظام ہی پسماندہ ہو تو ہر سہولت، ہر سروس اور ہر امید دب جاتی ہے۔ ایک ملک کا مال دوسری منڈی تک وقت پر نہ پہنچے تو نہ صرف مہنگائی بڑھتی ہے بلکہ کاروبار دم توڑنے لگتا ہے۔ غریب اور کم آمدنی والے ممالک میں فی ہزار افراد کے لئے بمشکل چار کلومیٹر کا انفراسٹرکچر موجود ہے جبکہ امیر ممالک میں یہ تعداد سترہ کلومیٹر ہے۔ یہی خلیج مقابلہ، پیداوار اور معیار زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ زمینی پیمائش کے لحاظ سے بھی ایشیا کا بنیادی ڈھانچہ ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ محدود راستے اور تاخیر شدہ کنٹینرز کی صورت میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، رسد کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور مارکیٹ میں افراطِ زر جنم لیتی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر زمین سے گھرے ممالک اور چھوٹے جزیرے ہیں جہاں فاصلے اور لاگت دوہرا بوجھ بن چکے ہیں۔ عام سازوسامان کی ترسیل یہاں اوسط سے دگنی دوری طے کرتی ہے اور اس پر آنے والی لاگت بھی دوگنا ہو جاتی ہے۔ گویا ان ممالک کی ترقی فطری رکاوٹوں میں جکڑی ہوئی ہے اور مسئلہ صرف انفراسٹرکچر کی کمی کا بھی نہیں بلکہ معیار بھی پسماندگی کی داستان ہے۔ غریب ممالک میں صرف پانچ فیصد سڑکیں قومی شاہراہوں یا ایکسپریس ویز پر مشتمل ہیں جبکہ انٹرسٹی کی رفتار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بندرگاہیں، ہوائی سفر اور کارگو رابطے عالمی اوسط سے کم ہیں، جو کہ معاشی بحالی کی کوششوں کو سست کر دیتے ہیں۔ اس تمام صورتحال کا اثر ماحول پر بھی پڑ رہا ہے۔ ایشیا میں کاربن کا بارہ فیصد اخراج صرف ٹرانسپورٹ سے کی وجہ ہے اور زمین سے گھرے یا جزیرے والے ممالک میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ سڑکوں پر انحصار کی قیمت نہ صرف مالیاتی طور پر بلکہ ماحولیاتی طور پر بھی ادا کی جا رہی ہے۔اِن سبھی مشکلات و مسائل کا حل سادہ نہیں مگر ممکن ہے۔ سب سے پہلے زیادہ اور بہتر رابطے بحال ہونے چاہیئں۔ صرف نئی سڑکیں نہیں بلکہ معیاری، مضبوط اور لچکدار نیٹ ورکس۔ پل، سرنگیں، فریٹ کوریڈورز اور جدید شاہراہیں ایسی بنیاد (سٹارٹ اپ) فراہم کر سکتے ہیں جس پر ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ دوسرا‘ ہمیں سڑکوں پر انحصار ختم کر کے ملٹی ماڈل نیٹ ورکس بنانے ہوں گے۔ ریل، شہری ٹرانزٹ اور بندرگاہوں کو ترقی دے کر نہ صرف نظام کی افادیت بڑھائی جا سکتی ہے بلکہ اخراجات اور کاربن اخراج میں بھی کمی ممکن ہے۔ تیسرا، ایسے علاقوں کو ترجیح دی جائے جو دوسروں سے کٹے ہوئے ہیں۔ زمین سے گھرے ممالک اور جزیروں تک اگر رسائی بہتر بنائی جائے تو تجارتی فاصلہ اور اخراجات نصف کئے جا سکتے ہیں۔ چوتھا، مالی وسائل متحرک کرنا ناگزیر ہے۔ سال 2020ء سے 2035ء کے دوران ایشیا کو نقل و حمل پر 43 کھرب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جو بڑی رقم ہے مگر اس کے فوائد کہیں زیادہ ہیں جیسا کہ تیز تر ترقی، کم اخراج، بہتر معیارِ زندگی کا حصول۔ پانچواں، علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ گزشتہ دہائی میں ایشیائی ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لئے ترقیاتی امداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، لیکن اس رفتار کو جاری رکھنا ہوگا۔ آخر میں، قومی پالیسیوں کو واضح اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ریل، ہوا بازی اور بندرگاہوں پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ ایشیا و بحرالکاہل اس وقت تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ خطہ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جائے گا یا پھر دنیا کی قیادت کرے گا۔ فیصلہ حکومتوں، اداروں اور اقوام کا ہے۔ اگر ہم کھربوں ڈالر، اسمارٹ پالیسی اور اجتماعی ویژن سے اس خلا ء کو پُر کر سکیں، تو ہمیں نہ صرف تیز تر تجارت بلکہ صاف، منظم اور خوشحال ایشیا بھی مل سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جیمز لیتھر۔ الوین میجا۔ سودھیر گوٹا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
برآمدات کا فروغ: مواقع
ایشیا اور بحرالکاہل کے ممالک آج کی دنیا میں اقتصادی ترقی کے محور پر کھڑے ہیں۔ تجارت، سرمایہ کاری اور صنعتی پیش رفت نے ان خطوں کو عالمی معیشت میں کلیدی حیثیت دی ہے لیکن ایک بنیادی خامی ان کی ترقی کی رفتار کو روکے ہوئے ہے اور وہ ناکافی اور غیر متوازن نقل و حمل کا نظام ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ الگ سے پریشان کن ہے کہ اگرچہ یہ خطہ عالمی تجارت میں سرگرم ہے، لیکن زمینی و فضائی رابطے‘ سڑکیں، ریلوے، بندرگاہیں اور ہوائی اڈے‘ ان کی اقتصادی ضروریات سے بہت کم ہیں تقریباً 1.8 ارب لوگ آج بھی قابلِ بھروسہ ٹرانسپورٹ نیٹ ورک سے محروم ہیں۔ یہ صرف ایک عددی کمی نہیں بلکہ سماجی و معاشی ترقی کے راستے میں کھڑی رکاوٹ (دیوار) بھی ہے۔بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات تک عدم رسائی اپنی جگہ سنگین مسئلہ ہے مگر جب نقل و حمل کا نظام ہی پسماندہ ہو تو ہر سہولت، ہر سروس اور ہر امید دب جاتی ہے۔ ایک ملک کا مال دوسری منڈی تک وقت پر نہ پہنچے تو نہ صرف مہنگائی بڑھتی ہے بلکہ کاروبار دم توڑنے لگتا ہے۔ غریب اور کم آمدنی والے ممالک میں فی ہزار افراد کے لئے بمشکل چار کلومیٹر کا انفراسٹرکچر موجود ہے جبکہ امیر ممالک میں یہ تعداد سترہ کلومیٹر ہے۔ یہی خلیج مقابلہ، پیداوار اور معیار زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ زمینی پیمائش کے لحاظ سے بھی ایشیا کا بنیادی ڈھانچہ ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے ہے۔ محدود راستے اور تاخیر شدہ کنٹینرز کی صورت میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں، رسد کی زنجیریں ٹوٹتی ہیں اور مارکیٹ میں افراطِ زر جنم لیتی ہے۔ سب سے زیادہ متاثر زمین سے گھرے ممالک اور چھوٹے جزیرے ہیں جہاں فاصلے اور لاگت دوہرا بوجھ بن چکے ہیں۔ عام سازوسامان کی ترسیل یہاں اوسط سے دگنی دوری طے کرتی ہے اور اس پر آنے والی لاگت بھی دوگنا ہو جاتی ہے۔ گویا ان ممالک کی ترقی فطری رکاوٹوں میں جکڑی ہوئی ہے اور مسئلہ صرف انفراسٹرکچر کی کمی کا بھی نہیں بلکہ معیار بھی پسماندگی کی داستان ہے۔ غریب ممالک میں صرف پانچ فیصد سڑکیں قومی شاہراہوں یا ایکسپریس ویز پر مشتمل ہیں جبکہ انٹرسٹی کی رفتار ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ بندرگاہیں، ہوائی سفر اور کارگو رابطے عالمی اوسط سے کم ہیں، جو کہ معاشی بحالی کی کوششوں کو سست کر دیتے ہیں۔ اس تمام صورتحال کا اثر ماحول پر بھی پڑ رہا ہے۔ ایشیا میں کاربن کا بارہ فیصد اخراج صرف ٹرانسپورٹ سے کی وجہ ہے اور زمین سے گھرے یا جزیرے والے ممالک میں یہ شرح کہیں زیادہ ہے۔ سڑکوں پر انحصار کی قیمت نہ صرف مالیاتی طور پر بلکہ ماحولیاتی طور پر بھی ادا کی جا رہی ہے۔اِن سبھی مشکلات و مسائل کا حل سادہ نہیں مگر ممکن ہے۔ سب سے پہلے زیادہ اور بہتر رابطے بحال ہونے چاہیئں۔ صرف نئی سڑکیں نہیں بلکہ معیاری، مضبوط اور لچکدار نیٹ ورکس۔ پل، سرنگیں، فریٹ کوریڈورز اور جدید شاہراہیں ایسی بنیاد (سٹارٹ اپ) فراہم کر سکتے ہیں جس پر ترقی کی عمارت کھڑی کی جا سکتی ہے۔ دوسرا‘ ہمیں سڑکوں پر انحصار ختم کر کے ملٹی ماڈل نیٹ ورکس بنانے ہوں گے۔ ریل، شہری ٹرانزٹ اور بندرگاہوں کو ترقی دے کر نہ صرف نظام کی افادیت بڑھائی جا سکتی ہے بلکہ اخراجات اور کاربن اخراج میں بھی کمی ممکن ہے۔ تیسرا، ایسے علاقوں کو ترجیح دی جائے جو دوسروں سے کٹے ہوئے ہیں۔ زمین سے گھرے ممالک اور جزیروں تک اگر رسائی بہتر بنائی جائے تو تجارتی فاصلہ اور اخراجات نصف کئے جا سکتے ہیں۔ چوتھا، مالی وسائل متحرک کرنا ناگزیر ہے۔ سال 2020ء سے 2035ء کے دوران ایشیا کو نقل و حمل پر 43 کھرب ڈالر کی ضرورت ہے۔ جو بڑی رقم ہے مگر اس کے فوائد کہیں زیادہ ہیں جیسا کہ تیز تر ترقی، کم اخراج، بہتر معیارِ زندگی کا حصول۔ پانچواں، علاقائی اور بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ گزشتہ دہائی میں ایشیائی ٹرانسپورٹ منصوبوں کے لئے ترقیاتی امداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، لیکن اس رفتار کو جاری رکھنا ہوگا۔ آخر میں، قومی پالیسیوں کو واضح اہداف کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ضروری ہے۔ صرف سڑکوں پر ہی نہیں بلکہ ریل، ہوا بازی اور بندرگاہوں پر بھی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ ایشیا و بحرالکاہل اس وقت تاریخی موڑ پر کھڑے ہیں۔ یہ خطہ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جائے گا یا پھر دنیا کی قیادت کرے گا۔ فیصلہ حکومتوں، اداروں اور اقوام کا ہے۔ اگر ہم کھربوں ڈالر، اسمارٹ پالیسی اور اجتماعی ویژن سے اس خلا ء کو پُر کر سکیں، تو ہمیں نہ صرف تیز تر تجارت بلکہ صاف، منظم اور خوشحال ایشیا بھی مل سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر جیمز لیتھر۔ الوین میجا۔ سودھیر گوٹا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)