پاک چین دوستی: مظاہر و نتائج

کئی دہائیوں تک ”میڈ اِن چائنا“ ایک مذاق کی اصطلاح رہی ہے۔ جب بھی کوئی چیز سستی، ناقص یا جلد خراب ہونے والی ہوتی، تو فوراً یہی لیبل ذہن میں آتا کہ یہ تو ’میڈ اِن چائنا‘ ہے۔ چاہے وہ ایک ہفتے میں خراب ہونے والا موبائل فون کا چارجر ہو یا بچوں کے ایسے کھلونے جو شام ڈھلتے ہی ٹوٹ جائیں۔ لب لباب یہ ہے کہ ہم سب نے کبھی نہ کبھی چینی مصنوعات پر شکوک کا اظہار ضرور کیا ہے لیکن تصور کریں کہ جب یہی ’میڈ اِن چائنا‘ کا لیبل ایک ایسے تیز رفتار، جنگی تیاری کے حامل لڑاکا طیارے پر چسپاں ہو جو عالمی معیار کے طیارے (رافیل) کو بھی تباہ کر رہا ہو تو کیسا محسوس ہوتا ہے۔ یہ وہی غیر متوقع نتیجہ ہے جسے اکثر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان ائر فورس کے دستے میں حال ہی میں شامل ہوئے چینی ساختہ ’جے ٹین سی‘ طیارے نے خود کو صرف ایک کم خرچ متبادل ہی نہیں بلکہ مکمل طور پر موثر اور قابلِ اعتماد جنگی ہتھیار اور پلیٹ فارم کے طور پر منوایا ہے۔ اس نے نہ صرف فرانس کے جدید رافیل طیارے کو بنانے کی لاگت (قیمت) پیچھے چھوڑا بلکہ کارکردگی، رفتار اور ہتھیار لیجانے کی صلاحیت کے لحاظ سے بھی قابلِ ذکر برتری دکھائی۔ حالیہ سرحدی جھڑپوں میں، جے ٹین سی مبینہ طور پر جدید ’پی ایل پندرہ ای‘ میزائلوں اور پاکستانی مہارت کے امتزاج سے رافیل کو پیچھے چھوڑنے میں کامیاب رہا۔ یاد رہے، رافیل کوئی عام جنگی طیارہ نہیں۔ یہ یورپی انجینئرنگ کا شاہکار، دو انجن والا، ملٹی رول جنگی طیارہ ہے، جو ممالک اپنی فضائی برتری کے اظہار کے لئے خریدتے ہیں۔ بھارت نے 2016ء میں 36 رافیل طیاروں کا معاہدہ تقریباً 8.7 ارب ڈالر میں کیا تھا، جس کا مطلب ہے کہ فی طیارہ تمام اخراجات ملا کر 240 ملین ڈالر سے زائد ادا کئے گئے۔ اس کے مقابلے میں، J 10C کی قیمت صرف 30 سے 40 ملین ڈالر کے درمیان ہے۔ کون سوچ سکتا تھا کہ سستا بھی مہلک ثابت ہو سکتا ہے؟جے ٹین سی جو چینگڈو ائرکرافٹ کارپوریشن کی تخلیق ہے، جدید AESA ریڈار، تھرسٹ ویکٹرنگ انجن اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز سے لیس ہے۔ یہ اب صرف مغربی طیاروں کا سستا نعم البدل نہیں بلکہ اپنی جگہ ایک مکمل اور خطرناک جنگجو ہے لیکن معاملہ صرف طیاروں تک محدود نہیں۔ یہ کہانی چینی ٹیکنالوجی سے متعلق بدلتے بیانیے کی ہے، خاص طور پر دفاعی شعبے میں چین کسی بھی ملک سے پیچھے نہیں رہا۔ طویل عرصے تک چینی دفاعی مصنوعات کو ”کاپی کیٹ“ کہہ کر مسترد کیا جاتا رہا مگر اب حقیقی کارکردگی نے ان تمام مفروضات کو چیلنج کر دیا ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کے مطابق، چین نے 2018ء سے 2022ء کے دوران 17.3 ارب ڈالر کا اسلحہ برآمد کیا اور دنیا کا چوتھا سب سے بڑا ہتھیار برآمد کرنے والا ملک بن گیا۔ پاکستان اس کا ایک قریبی دفاعی شراکت دار ہے، جس کے پاس 100 سے زائد JF-17 نامی طیارے اور اب J-10C کا بیڑا موجود ہے۔ یہاں ایک دلچسپ تضاد جنم لیتا ہے: وہی لوگ جو چینی جنگی طیاروں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے، روزمرہ کی زندگی میں چینی مصنوعات پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ ان کے اسمارٹ فونز، لیپ ٹاپس، گھریلو آلات، حتیٰ کہ ان کی گاڑیوں کے پرزے  سب کسی نہ کسی شکل میں چینی صنعت سے بنے ہیں۔ اور پھر بھی، جنگی ٹیکنالوجی کی بات آتے ہی وہ اچانک معیار پر سوال اٹھانے لگتے ہیں تو یہ تعجب خیز رویہ ہے۔جے ٹین سی صرف طیارہ نہیں بلکہ یہ طاقت کے بڑھتے ہوئے توازن کی علامت ہے۔ یہ پاکستان کے لئے اسٹریٹجک برتری، خود مختاری اور قومی وقار کا ذریعہ ہے اور شاید اس سے بھی بڑھ کر، یہ دنیا، خاص طور پر بھارت، کو اس سوچ پر نظر ثانی پر مجبور کرتا ہے کہ مہنگا ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر حسان الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 تو اگلی بار جب کوئی میڈ اِن چائنا پر طنزیہ ہنسی ہنسے، تو اسے یاد دلائیں کہ یہی لیبل اب ایک ایسے طیارے کی شناخت بن چکا ہے جو نہ صرف جنوبی ایشیا کے مہنگے ترین جنگی جہازوں کو چیلنج کر رہا ہے بلکہ میدانِ جنگ میں اپنی برتری بھی ثابت کر چکا ہے۔۔۔۔۔۔