پاکستان اُور تجارتی جنگ

یہ کہنا کسی طور مناسب ہوگا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دوسری مدت کی اب تک کی سب سے بڑی توجہ اور ترجیح محصولات ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے دنیا کے تقریباً ہر ملک پر محصولات عائد کرکے نئے دور کا آغاز کیا ہے۔ ابتدائی طور پر انہوں نے کہا تھا کہ نئے محصولات دیگر ممالک کی جانب سے اشیاء اور خدمات کی امریکی درآمدات پر عائد کئے گئے محصولات کا جواب ہوں گے تاہم، جب محصولات کا اعلان کیا گیا تھا، تو امریکی حکومت کی طرف سے زیادہ تر تجارتی توازن یا عدم توازن کو مدنظر رکھا گیا اور عائد کردہ نیا ٹیرف اِس عدم توازن کو دور کرنے کے لئے ڈیزائن کیا گیا۔ پاکستان کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ نے 29فیصد ٹیرف عائد کرنے کی تجویز دی تھی۔ یہ پاکستان سے درآمدات پر پہلے سے موجود ٹیرف کے علاؤہ ہوگا جو اس وقت ٹیکسٹائل پر 8.6فیصد ہے۔ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور مالی سال 2024ء میں پاکستان کی امریکہ کو برآمدات 5.3 ارب ڈالر رہیں جن میں سے زیادہ تر ٹیکسٹائل اور اِس سے متعلقہ اشیاء تھیں۔ امریکہ سے پاکستان کی برآمدات 2 ارب ڈالر ہیں جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کے حق میں تقریباً 3 ارب ڈالر کا تجارتی سرپلس ہے۔ پاکستان کی برآمدات پر گہری نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کے ٹاپ ٹین برآمد کنندگان میں سے نو ٹیکسٹائل اور متعلقہ مصنوعات برآمد کرتے ہیں، جن میں انٹرلوپ، نشاط، آرٹسٹک ملینرز جیسے نام سرفہرست ہیں۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (پی آئی ڈی ای) کی تحقیق کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے عائد کردہ محصولات کی وجہ سے امریکہ کو پاکستان کی برآمدات میں بیس سے پچیس فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ اس سے مجموعی برآمدات میں ایک ارب ڈالر سے ڈیڑھ ارب ڈالر تک کی کمی ممکن ہے۔ امریکہ کو پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات پر موجودہ ٹیرف 8.6فیصد ہے اور اگر مجوزہ 29 فیصد کو شامل کیا جاتا ہے تو پاکستان کی امریکہ کو برآمدات پر مجموعی طور پر 37.6 فیصد ٹیرف ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ بھارت اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریف پاکستان کو امریکی مارکیٹ سے باہر کردیں گے لہٰذا واضح طور پر حکومت پاکستان کو ایسا کرنے سے روکنے کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے۔ اسے محصولات میں کمی کے طریقوں پر ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بات چیت کرنے کی بھی ضرورت ہے، جس کے بعد امکان ہے کہ امریکہ کی طرف سے بھی اس کا جواب دیا جائے گا۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے اور پیش گوئی کے مطابق برآمدات میں کمی واقع ہوتی ہے تو برآمدی فہرست میں شامل کمپنیاں خاص طور پر ٹیکسٹائل اور متعلقہ سازوسامان فروخت کرنے والوں کو بڑا دھچکا لگ سکتا ہے اگر مجوزہ محصولات نافذ العمل ہوجاتے ہیں تو بھارت اور بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کو امریکی مارکیٹ میں برآمد کرنے میں فائدہ ہوگا۔ اِس صورتحال میں حکومت پاکستان کو کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ جہاں تک قلیل مدتی محصولات کا تعلق ہے‘ پاکستان امریکہ سے درآمدات پر محصولات کو اس حد تک کم کرنے پر غور کر سکتا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے عائد 29 فیصد ٹیرف واپس لے لیا جائے۔ امریکہ میں پاکستانی برآمد کنندگان کیلئے یہ ایک طریقہ ہوگا کہ وہ اپنی برآمدات میں کمی کا شکار نہ ہوں اور پاکستان کی مجموعی برآمدات میں کمی کو روکا جا سکے تاہم، ایسا کرنا آسان ہے اور اگر اس کو نافذ بھی کیا جاتا ہے تو ضروری نہیں کہ امریکہ اپنے مجوزہ محصولات کو واپس لے لے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس ٹیرف کا مقصد دراصل دیگر ممالک کی جانب سے امریکہ کے ساتھ کئے جانے والے اقدامات کا بدلہ لینا نہیں بلکہ پاکستان سمیت بہت سے ممالک کے ساتھ امریکہ کے تجارتی خسارے کو کم کرنا ہے لہٰذا جہاں تک قلیل مدت کی بات ہے اور جب تک ٹرمپ کی سوچ تبدیل نہیں ہوتی اور موجودہ 90 دن کے وقفے کو غیر معینہ مدت کے لئے نہیں بڑھایا جاتا، اس بات کا امکان رہے گا کہ امریکہ کی ٹیرف پالیسی سے پاکستانی برآمدات متاثر ہوں گی اور یہ بھی امکان ہے کہ ٹیکسٹائل برآمد کنندگان اس سے زیادہ متاثر ہوں‘ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ اس معاملے کو حل کرنے کی کوشش کرنے کے لئے ایک اعلی سطحی ٹیم امریکہ بھیج رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب تک وہ سکیورٹی اور انسداد دہشت گردی جیسے محرکات کا حوالہ نہیں دیا جائے گا تب تک پاکستان کو حسب توقع زیادہ فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان کو امریکہ سے تجارتی فوائد حاصل کرنے کیلئے کثیرالجہتی اور قلیل الجہتی اہداف مقرر کرنا ہوں گے اس سلسلے میں جو کچھ کرنے کی ضرورت ہے وہ پہلے بھی کئی بار تجویز کیا جا چکا ہے۔ مثال کے طور پر، نئی منڈیوں کی تلاش کریں، نئی مصنوعات اور خدمات بنانے کیلئے جدت سے کام لیا جائے تاکہ دیگر ممالک کے مقابلے میں مسابقتی برتری حاصل ہو۔ برآمدات کے لئے تیار اپنی اشیاء اور خدمات کی قدر میں اضافہ کریں، لیبر فورس کی مہارتوں کو فروغ دیا جائے۔ پیداوار کے چکر میں ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جائے وغیرہ۔ اگر حکومت اور پاکستانی صنعت اور کاروباری ادارے چاہتے ہیں کہ پاکستان کی سالانہ برآمدات پچاس ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہوں تو انہیں اپنی ترجیحات اور حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر: عمر قریشی۔ ترجمہ:اَبواَلحسن اِمام)