جدت طرازی کا ازسر نوتصور

تیزی سے بدلتی ہوئی عالمی معیشت میں‘ کسی ملک کی جدت اور انٹرپرینیورشپ کو فروغ دینے کی صلاحیت اس کی ترقی کا بنیادی نکتہ ہے۔ جن ممالک نے اسٹارٹ اپس کی پشت پناہی کی ہے‘ وہ نہ صرف ملازمتی مواقع پیدا کر رہے ہیں بلکہ خود کو تکنیکی ترقی میں عالمی رہنما کے طور پر بھی منوا رہے ہیں۔ متحرک تعلیمی نظام بنیادی ضرورت ہے جو صرف علم فراہم کرنے سے کہیں زیادہ کام کرتا ہے‘ یہ تخلیقی صلاحیتوں‘ آزاد انہ سوچ اور مسائل کے حل پیش کرتا ہے۔ کیمبرج‘ اسٹینفورڈ اور ایم آئی ٹی جیسی یونیورسٹیاں محض تعلیم کے مراکز نہیں رہے بلکہ جدت کے انکیوبیٹرز (پرورش گاہیں) ہیں جہاں طلبہ کو بار بار تجربات کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ایسی جامعات میں تعلیم اور صنعتوں کے درمیان قریبی تعلق کو بھی یقینی بنایا جاتا ہے جبکہ اس کے برعکس‘ پاکستان کا تعلیمی نظام بڑی حد تک ”رٹے“ پر مبنی ہے‘ جس میں تنقید اْور تحقیق کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ طلبہ اکثر ایسی ڈگریوں کے ساتھ گریجویٹ ہوتے ہیں جو مارکیٹ کی ضروریات سے مطابقت نہیں رکھتے‘ جس کی وجہ سے وہ کاروبار شروع کرنے یا جدت کیلئے تیار نہیں ہیں۔ جدت پر مبنی معیشت کی جانب بڑھنے کیلئے پاکستان کو سب سے پہلے اپنے تعلیمی منظرنامے میں مکمل تبدیلی لانا ہوگی۔ اس سلسلے میں اساتذہ کو بنیادی طور پر اہم کردار ادا کرنا ہوگا جب راقم الحروف ایچ ای سی کا چیئرمین تھا تو میں نے بہت زیادہ تنخواہوں اور بہتر قابلیت کے ساتھ کارکردگی پر مبنی ٹرم ٹریک سسٹم کو تمام اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں توسیع دی۔ نصاب تعلیم کو جدید بنانے کیلئے اپ ڈیٹ 
کیا جانا چاہئے جس میں ڈیزائن سوچ‘ کوڈنگ‘ انٹرپرینیورشپ اور مشترکہ مسائل کا حل شامل ہے۔ یونیورسٹیوں کو تحقیقی کلچر کو بھی فروغ دینا چاہئے اور نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کی سہولیات فراہم کرنی چاہئیں طلبہ کے خیالات کو قابل عمل کاروباری اداروں میں تبدیل کرنے کے قابل بنانا چاہئے۔ پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم کو ترجیح دی جانی چاہئے تاکہ ایک ایسی افرادی قوت تیار کی جاسکے جو عالمی صنعتوں کے تیزی سے بدلتے تقاضوں کو اپنانے کے قابل ہو۔ کسی ٹھوس تعلیمی بنیاد کے بغیر صرف جدت کافی نہیں ہوگی۔ اسکولوں اور کالجوں کو انٹرپرینیورشپ ماڈیولز کو مربوط کرنا پڑے گا جو طلبہ کو چھوٹی عمر سے اسٹارٹ اپ سوچ سے روشناس کرائیں۔ قومی کاروباری مقابلے جدت کے جذبے کو مزید جلا بخش سکتے ہیں۔ کاروباری ماحولیاتی نظام کا اہم جزو سرمائے تک رسائی میں آسانی ہے۔ ہمیں پختہ مالیاتی نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جو ہر مرحلے پر اسٹارٹ اپس کی سرپرستی کرے اْور یہ بیج فنڈنگ سے لے کر ابتدائی پیشکشوں تک کی سرپرستی کرے۔ وینچر کیپیٹل فرمز‘ فرشتہ سرمایہ کار اور کراؤڈ فنڈنگ پلیٹ فارم مضبوط نیٹ ورک 
تشکیل دیتے ہیں جو نئے کاروباروں کے ابھرنے کی رکاوٹیں کم کرتا ہے۔ پاکستان کے اسٹارٹ اپس کیلئے مالی وسائل (فنڈنگ) حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ فنڈنگ کے اس خلا کو دور کرنے کیلئے‘ پاکستان کو زیادہ سٹارٹ اپ دوست سرمایہ کاری ماحول پیدا کرنا ہوگا۔ اسٹارٹ اپس کی سرپرستی کرنے والے اداروں کی موجودگی اپنی جگہ اہم و ضروری ہے۔ امریکہ میں وائی کمبینیٹر اور ٹیک اسٹارز جیسے ایکسلریٹر نے یونیورسٹی سے وابستہ انکیوبیٹرز کے ساتھ مل کر سٹارٹ اپس کو آئیڈیا سے عملی جامہ پہنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان نے بڑے شہروں میں نیشنل انکیوبیشن سینٹرز کے قیام کے ساتھ اس شعبے میں کچھ پیشرفت کی ہے لیکن امداد محدود ہے لہٰذا انکیوبیٹرز اور ایکسلریٹرز کی رسائی اور معیار کو بڑھانا ضروری ہے۔ ہمارے قومی رہنماؤں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ ایک پھلتا پھولتا اسٹارٹ اپ منظر نامہ صرف ٹیکنالوجی یا سرمائے سے متعلق نہیں بلکہ یہ ایک ایسا ماحول تخلیق کرنے کے بارے میں ہے جہاں خیالات کو اعتماد کے ساتھ قابل عمل بنایا جاسکتا ہے‘ اسے آزمایا جا سکتا ہے اور بڑھایا بھی جاسکتا ہے‘ پاکستان کے نوجوان اہلیت (ٹیلنٹ)‘ عزائم اور تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر ان خوبیوں کو صحیح پالیسیوں اور جرأت مندانہ قومی وژن کی حمایت حاصل ہو تو ملک جامع اور جدت پر مبنی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ ہمیں انٹرپرینیورشپ کی تبدیلی کی طاقت کو اپنانے کیلئے تیزی سے اور فیصلہ کن طور پر کام کرنا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ ابوالحسن امام)