چین، روس اور ان کے اتحادی ممالک قابل ذکر معاشی اور سفارتی توسیع کے عمل سے گزر رہے ہیں جبکہ تاریخی طور پر غالب مغربی ممالک، خاص طور پر امریکی اثر و رسوخ کو کمی کا سامنا ہے بظاہر اقتصادی تحفظ پسندی کی آڑ میں امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی تجارتی جنگوں کے منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں اسٹریٹجک ناکامیاں، مالی چیلنجز اور سفارتی غلطیاں ہوئی ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ کے دوران جب امریکہ نے چین کے خلاف جارحانہ تجارتی جنگ کا آغاز کیا تو بیجنگ کو شدید معاشی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا۔ ملک نے اپنی منڈیوں کو متنوع بنا کر، بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کے ذریعے علاقائی شراکت داری کو بڑھایا ہے اور افریقہ، لاطینی امریکہ اور یورپ میں اپنے اثر و رسوخ میں بھی اضافہ کیا ہے‘ اس کے برعکس، امریکی کاروباری اداروں کو اپنی ہی حکومت کی طرف سے عائد کردہ محصولات کی وجہ سے نمایاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔کسانوں، مینوفیکچررز اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں منافعوں میں کمی دیکھی گئی ہے، جس کے نتیجے میں ملازمتوں میں کمی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔ چین کے جوابی اقدامات لائق مطالعہ ہیں، جن میں امریکی مصنوعات پر انحصار کم کرنے، روس اور یورپی یونین کے ساتھ تعاون بڑھانے اور بین الاقوامی تجارت میں امریکی ڈالر کے قابل عمل متبادل کے طور پر چین کی اپنی کرنسی یوآن کو مضبوط بنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے‘امریکہ کی جانب سے شروع کی جانے والی تجارتی جنگ کے نتیجے میں اہم اتحادیوں کی علیحدگی بھی ہوئی ہے، جو خود کو اس تنازعے میں پھنسا ہوا محسوس کر رہے ہیں‘ واشنگٹن کے اقتصادی ایجنڈے سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے، یورپی یونین اور دیگر مغربی معیشتوں نے چین اور روس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ روابط کو فروغ دے کر خطرات کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس غلط اندازے نے مشرق کو غالب معاشی اکائی کے طور پر ابھرنے میں مدد فراہم کی ہے، جس سے واشنگٹن کا اثر و رسوخ مزید کم ہوا ہے۔ جوں جوں امریکہ کا معاشی اثر و رسوخ کم ہوتا جا رہا ہے اور اِس کی سفارتی حیثیت بھی متاثر ہوئی ہے۔ مشرق وسطی سے لے کر مشرقی یورپ تک اہم بین الاقوامی تنازعات کی بدانتظامی نے اتحادیوں اور مخالفین دونوں میں امریکی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس رجحان کی خاص مثال مشرق وسطی میں امریکہ کا حالیہ سفارتی دھچکا ہے اگرچہ پابندیوں اور فوجی طرز عمل کے ذریعے ایران کو تنہا کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن تہران کے صبر نے اسے عالمی سطح پر عزت بخشی ہے۔ ایرانی صدر، جو اپنی منظم سفارتی حکمت عملی کے لئے جانے جاتے ہیں، نے متعدد بحرانوں سے بخوبی نمٹا ہے اور مسلسل امریکی مفادات کو نظر انداز کیا ہے۔ بیرونی دباؤ کے سامنے جھکنے کے بجائے ایران نے چین اور روس کے ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط کیا ہے۔ برکس میں انضمام اور غیر مغربی ممالک کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو وسعت دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یورپی جغرافیائی سیاست پر کنٹرول حاصل کرنے کی امریکی کوششیں بھی بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔جنوبی ایشیا ابھرتے ہوئے عالمی نظام میں اہم خطے کے طور پر ابھر رہا ہے، جس کی خصوصیت اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی منظر نامے دونوں کو تشکیل دے رہی ہے۔ چین کے اسٹریٹجک اتحادی کے طور پر پاکستان کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) دیا ہے جس کے ذریعے اپنی پوزیشن کو مستحکم کیا ہے، جو بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا اہم اقدام ہے جس کا مقصد علاقائی رابطوں کو بڑھانا ہے۔ اقتصادی چیلنجز کا سامنا کرنے کے باوجود پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات اسے مغربی اثر و رسوخ کو مثر طریقے سے متوازن کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس، طالبان کی حکمرانی کے تحت افغانستان نے اپنی توجہ علاقائی تعاون پر مرکوز کر رکھی ہے اور افغانستان چین، روس اور ایران کے ساتھ اقتصادی انضمام کی کوشش کر رہا ہے جبکہ خود کو مغربی ممالک کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے دور رکھے ہوئے ہے۔ روایتی طور پر مغربی طاقتوں کے ساتھ منسلک بھارت نے واشنگٹن اور ماسکو دونوں کے ساتھ اپنی شراکت داری کو متوازن کرتے ہوئے عملی نکتہء نظر اپنایا ہے۔ روسی توانائی کے اہم خریدار کی حیثیت سے، نئی دہلی نے بیرونی جغرافیائی سیاسی دبا پر اپنے قومی مفادات پر زور دیتے ہوئے مغربی پابندیوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ برکس میں بھارت کی شمولیت اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کثیر قطبی عالمی نظام میں اسٹریٹجک خودمختاری کو برقرار رکھنے کے ارادے کی عکاسی کرتے ہیں۔ایران ایک لچکدار علاقائی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، جو چین، روس اور وسیع تر عالمی جنوب کے ساتھ اپنے اقتصادی اور فوجی تعلقات کو مضبوط کرتے ہوئے پابندیوں اور سفارتی تنہائی سے نمٹنے میں مہارت رکھتا ہے۔ برکس میں تہران کی شمولیت اور مشرق وسطیٰ میں اس کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ امریکی بالادستی سے دوری میں اس کے کردار کی نشاندہی کر رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں اسٹریٹجک ری لائنیشن وسیع تر عالمی رجحان کی علامت ہے، جس میں ممالک مغربی مالیاتی بالادستی سے معاشی آزادی حاصل کرنے اور ابھرتی ہوئی طاقتوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چین اور روس کے سب سے آگے ہونے کی وجہ سے جنوبی ایشیا مستقبل کے جغرافیائی سیاسی منظرنامے پر اثر انداز ہونے میں اہم کردار ادا ہے، جو کسی زمانے میں مغرب کے زیر تسلط قدیم یونی پولر ماڈل کو فعال طور پر چیلنج کرتا تھا۔ یوکرین کی صورت حال نے مغربی وسائل کو کم کیا ہے جبکہ روس نے اپنا معاشی استحکام اور برتری برقرار رکھی ہوئی ہے، جسے چین، بھارت اور دیگر ممالک کی حمایت حاصل ہے اور یہ ممالک واضح طور پر امریکی ہدایات پر عمل کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر‘ حنا آریا۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
روس کو معاشی طور پر الگ تھلگ کرنے کی امریکہ کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں کیونکہ ماسکو نے کامیابی کے ساتھ اپنی توانائی کی برآمدات کو ایشیا کی طرف موڑ دیا ہے، جس میں چین اور بھارت اہم خریداروں کے طور پر ابھرے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔